Surah Taha Ayat-131 Mein Allah Ne Kis Se Khitab Farmaya Hai ?

سورۂ طہ کی آیت نمبر 131 کی تفسیر

مجیب:ابو مصطفیٰ محمد ماجد رضا  عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-860

تاریخ اجراء: 02رجب  المرجب1444 ھ  /25 جنوری2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   سورۂ طہ کی آیت نمبر 131  میں فرمایا گیا: وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ یعنی جو ہم نے کفار کو فائدہ اٹھانے کے لئے مال دیا ہے، اس پر نگاہ نہ ڈالنا۔ آیت کے اس حصہ سے کیا مراد ہے جبکہ رشک کرنے کی شرعاً اجازت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :’’وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَهُمْ فِیْهِؕ-وَ رِزْقُ رَبِّكَ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى ‘‘ترجمہ : اور اے سننے والے! ہم نے مخلوق کے مختلف گروہوں کو دنیا کی زندگی کی جوتروتازگی فائدہ اٹھانے کیلئے دی ہے تاکہ ہم انہیں اس بارے میں آزمائیں تو اس کی طرف تو اپنی آنکھیں نہ پھیلا اور تیرے رب کا رزق سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والاہے۔(پارہ :16،سورۃ طٰہ،آیت:131)

   اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے  دراصل ایمان والوں سے خطاب فرمایا ہے اور انہیں کفار کے عیش و عشرت کو تعجب  اور پسندیدگی سے دیکھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ عیش وعشرت دراصل کفار کے لیے  آزمائش  ہےجس میں مبتلا ہوکر وہ اخروی نقصانات اٹھائیں گے لہٰذا ایسے عیش وعشرت سے رشک نہ کیا جائے کہ رشک تو اس چیز کے لیے جاتاہے جو انسان اپنے لیے چاہتا ہو اور ایک مسلمان کبھی بھی اپنے لیے ایسا مال نہیں چاہے گا جو اس کے لیے باعثِ آزمائش ہو اور اخروی نقصان کا باعث بنے ۔

   تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت  ہے :’’ اس آیت میں بظاہر خطاب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ہے اور اس سے مراد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے سننے والے! ہم نے کافروں کے مختلف گروہوں جیسے یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکوں وغیرہ کودنیا کا جو ساز و سامان فائدہ اٹھانے کیلئے دیا ہے وہ اس وجہ سے دیا ہے تاکہ ہم انہیں اس کے سبب اس طرح آزمائش میں ڈالیں کہ ان پر جتنی نعمت زیادہ ہو اتنی ہی ان کی سرکشی اور ان کا طُغیان بڑھے اور وہ سزائے آخرت کے سزاوار ہوں ،لہٰذا تو تعجب اور اچھائی کے طور پر اس کی طرف اپنی آنکھیں نہ پھیلا اور آخرت میں تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کا رزق جنت اور ا س کی نعمتیں سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا رزق ہے۔“(صراط الجنان ،جلد:6،صفحہ:261،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم