مجیب:ابوواصف محمد آصف عطاری
مصدق: مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: JTL-1685
تاریخ اجراء: 29شوال المکرم 1445 ھ/08مئی 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مکتبۃ المدینہ سے مفتی محمدقاسم قادری دامت برکاتہم العالیہ کی تین تفسیریں جاری ہوئی ہیں:(1)تفسیرصراط الجنان (2)تفسیرتعلیم القرآن (3)اوراِفہام القرآن (حاشیہ قرآن)۔شرعی رہنمائی درکارہے کہ ان تفاسیرکو بے وضوشخص کاچھونا کیساہے؟نیز اسلامی بہن مخصوص ایام میں ان تفاسیرکوپکڑ سکتی ہے یانہیں ؟اور اسی حالت میں اس کی عبارت پر ہاتھ لگا سکتی ہے یا نہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال کاجواب جاننے سے پہلے کتبِ تفاسیرکے متعلق ایک بنیادی تمہیداورکچھ احکام ذہن نشین فرمالیں۔
عمومی طور پرمار کیٹ میں دستیاب کتب تفاسیردوطرح کی ہیں :
(1)تفسیر کی ایسی کتابیں جن میں تفسیر کی عبارت زیادہ اور قرآنی آیات گویا تابع قرار پا ئیں ، ان پر قرآن پاک کا اطلاق نہیں کیا جاتا، اور انہیں چھونے کو قرآن چھونا نہیں کہا جاتا، جیسے تفسیرِ صاوی، تفسیرِجمل اورتفسیرِ نعیمی وغیرہ۔ ایسی تفاسیر بے وضو اورحیض ونفاس والی عورت کے لیے پکڑنا ،چھونا، جائز ہے، لیکن مکروہ وناپسندیدہ ہے، ہاں بغیر طہارت ان کتب میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جہاں پر قرآن پاک کی آیت ،لفظ یاکسی بھی زبان میں اس کا ترجمہ ہو،اسے نہ چھوئیں کہ وہاں بغیر طہارت ہاتھ لگانا حرام ہے۔ نیز ان میں جن صفحات پر صرف قرآن پاک لکھا ہو، انہیں بغیر طہارت کہیں سے بھی نہ چھوئیں، حتیٰ کہ خالی جگہ پر بھی ہاتھ لگانا ،جائز نہیں کہ وہ خالی جگہ بھی قرآن کے تابع ہے۔ البتہ جن صفحات میں قرآن کی آیات ضمنا ًلکھی ہوں اور دیگر تحریر(تفسیرو حواشی) زیادہ ہو، ان میں قرآن کی آیت و ترجمہ کی جگہ کو چھوڑ کر بقیہ صفحے کو ہاتھ لگانا،ناجائزوگناہ نہیں ہے۔
(2)ایسی تفاسیر جو قرآن پاک کی تابع ہوتی ہیں اور انہیں مصحف یعنی قرآن پاک ہی کہا جاتا ہے،تفسیر یا اور کوئی نام نہیں رکھا جاتا ،جیسے بغیر حاشیے والی جلالین،خزائن العرفان ونور العرفان وغیرہ ،تو ایسی تفاسیر کو چھونے کا حکم عام تفسیروں والا نہیں، بلکہ مثل ِ قرآن ہے، لہٰذا بے وضو یا حیض ونفاس والی عورت، چاہے معلمہ ہو یا طالبہ، اُسےایسی تفاسیر کا چھونا ناجائز ہے،چاہے وہ خالی جگہ ہو۔حتیٰ کہ اس کی جِلد اور چولی کو چھونا بھی حرام ہے،البتہ ایسی تفسیر اگر غلاف، جزدان یا بیگ میں ہو،تو ایسے غلاف ،جزدان اور بیگ کو ہاتھ لگا سکتے ہیں۔نیز رومال وغیرہ کسی ایسے کپڑے کے ساتھ بھی چھو سکتے ہیں، جو اپنا تابع نہ ہویعنی اس کپڑے کو پہنا یا اوڑھا ہوانہ ہو،نہ ہی اس کا کوئی کونا وغیرہ کندھوں پر پڑا ہو۔اور نہ ہی مصحف کا تابع ہو۔
مذکورہ بالاوضاحت کی روشنی میں مکتبۃ المدینہ سے جاری تفاسیرمیں سے تفسیرصراط الجنان اور تفسیرتعلیم القرآنپہلی کیٹیگری سےتعلق رکھتی ہیں ،کیونکہ ان میں تفسیراغلب ہے،لہٰذاان تفاسیر کوبے وضواورحائضہ کے لیے چھونے وغیرہ کے وہی احکام ہیں ،جوپہلی کیٹیگری میں بیان ہوئے ،جبکہ تفسیر افہام القرآن(مختصرحاشیہ قرآن )دوسری کیٹیگری سے تعلق رکھتی ہے،اس کو چھونے کا حکم عام تفسیروں والا نہیں، بلکہ مثل ِ قرآن ہے،لہٰذاان کو بےوضووحائضہ کے لیے چھونے کے وہی احکام ہیں ، جو دوسری کیٹیگری میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔
جزئیات مندرجہ ذیل ہیں:
الدرالمختار و ردالمحتار میں ہے:”فی الاشباہ۔۔۔ وقد جوز أصحابنا مس کتب التفسیر للمحدث ولم یفصلوا بین کون الأکثر تفسیرا أو قرآنا ولو قیل بہ (بأن یقال إن کان التفسیر أکثر لا یکرہ وإن کان القرآن أکثر یکرہ) اعتبارا للغالب لکان حسنا(وبہ یحصل التوفیق بین القولین)“ملتقطا من الدر و مزیدا من ردالمحتار بین الھلالین“ترجمہ: الاشباہ میں ہے کہ ہمارے علماء نے بے وضو شخص کا کتب تفسیر کو چھونا ،جائز قرار دیا ہے اوراس میں تفسیر یا قرآن کے زیادہ ہونے کی تفصیل بیان نہیں کی۔ البتہ اگر اس تفصیل کا قول کیا جائے یعنی یوں کہا جائے کہ اگر تفسیر زیادہ ہے تو پھر مکروہ نہیں اور اگر قرآن زیادہ ہے تو پھر مکروہ ہے، غالب کا اعتبار کرتے ہوئے تو بہت اچھا ہے ۔(علامہ شامی فرماتے ہیں ) اس تفصیل سے دونوں اقوال میں تطبیق پیدا ہو جاتی ہے۔ (الدرالمختار و ردالمحتار ،کتاب الطھارۃ ، جلد1،صفحہ353،مطبوعہ کوئٹہ)
ردالمحتار میں ہے:”ومشى في الفتح على الكراهة فقال: قالوا: يكره مس كتب التفسير والفقه والسنن؛ لأنها لا تخلو عن آيات القرآن“ترجمہ:فتح القدیر میں (تفاسیر کو بغیر طہارت چھونے کی)کراہت پر چلے ،پس فرمایا:علماء نے فرمایا:تفسیر ،فقہ اور سنن کی کتابوں کو چھونا مکروہ ہے، کیونکہ وہ قرآن پاک کی آیات سے خالی نہیں ہوتیں۔ (ردالمحتار،کتاب الطھارۃ، جلد1،صفحہ353،مطبوعہ کوئٹہ)
صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”ان سب(بے وضو ،جنبی وغیرہ )کوفقہ وتفسیر وحدیث کی کتابوں کا چھونا، مکروہ ہے ۔۔ مگر موضع آیت پر ان کتابوں میں بھی ہاتھ رکھنا حرام ہے۔ملخصاً“ (بھار شریعت،جلد1، حصہ2،صفحہ327، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
الجوہرۃ النیرہ وردالمحتار میں ہے:”واللفظ للآخر:وفي السراج عن الإيضاح أن كتب التفسير لا يجوز مس موضع القرآن منها، وله أن يمس غيره وكذا كتب الفقه إذا كان فيها شيء من القرآن، بخلاف المصحف فإن الكل فيه تبع للقرآن“ترجمہ:اور سراج میں ایضاح کے حوالے سے ہے کہ کتب تفسیر میں جہاں قرآن لکھا ہوا ہے، اس جگہ کو چھونا، جائز نہیں اور دوسری جگہ کو چھو سکتاہے۔ یہی حکم کتب فقہ کا ہے، جب ان میں قرآن سے کچھ لکھا ہوا ہو ،بخلاف مصحف کے کہ(اس کو بغیر طہارت کہیں سے بھی چھونا ،جائز نہیں کیونکہ ) اس میں سب قرآن کے تابع ہے۔ (ردالمحتار،کتاب الطھارۃ، جلد1،صفحہ353،مطبوعہ کوئٹہ)
کتب تفسیر و حدیث وغیرہ کو بغیر طہارت چھونا حرام نہیں ہے،اس کی وجہ علامہ شامی علیہ الرحمۃ غنیہ شرح منیہ کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” انہ لا یسمی ماساً للقرآن،لان ما فیھا منہ بمنزلۃ التابع اھ“ ترجمہ:کیونکہ (ان کو چھونے والا)قرآن کو چھونے والا نہیں کہلاتا اس لیے کہ ان میں موجود قرآن تابع کے درجہ میں ہوتا ہے۔ (ردالمحتار،کتاب الطھارۃ، جلد1،صفحہ352،مطبوعہ کوئٹہ)
قرآن پاک کے علاوہ دیگرچیزوں میں جس جگہ قرآن لکھا ہے، اسے چھوڑ کر بقیہ کو چھونا حرام نہیں ہے، جیسا کہ تنویرالابصار مع الدرالمختار وردالمحتار میں ہے:”و يحرم به أي بالأكبر وبالأصغر مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار(قال ح: لكن لا يحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر)والعبارۃ بین الھلالین مزیداًمن ردالمحتار“ترجمہ: حدث اکبر و اصغر کے ساتھ مصحف کو چھونا حرام ہوتا ہے یعنی وہ چیز جس میں آیت لکھی ہو ،جیسے درہم اور دیوار۔ علامہ حلبی نے فرمایا:لیکن مصحف شریف کے علاوہ دیگر چیزوں میں مکتوب یعنی لکھائی کی جگہ کے علاوہ دوسرے حصوں کو چھونا حرام نہیں ہے ، ایسا ہی بحر کے باب الحیض میں ہے ۔(ردالمحتار،کتاب الطھارۃ، جلد1،صفحہ347،مطبوعہ کوئٹہ)
امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال ہوا کہ:’’ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اِن مسائل میں اول یہ کہ سوا مصحف خاص کے کہ جس کے چھونے کی جنب اور محدِث کے حق میں شریعت سے ممانعت صریح واقع ہوئی ہے، بعض مصاحف اس قسم کے رائج ہوئے ہیں کہ اُن میں علاوہ نظم قرآن شریف کے دیگر مضامین بھی شامل ہوتے ہیں، چنانچہ بعض قسم اُس کی مترجم ہیں کہ مابین السطور ترجمہ فارسی یا اردو کا ہوتا ہے اور بعض مترجم کے حواشی پر کچھ کچھ فوائد بھی متعلق ترجمہ کے ثبت ہوتے ہیں، بلکہ بعض میں فوائد متعلق قراءت اور رسم خط وغیرہ بھی درج ہوتے ہیں اور بعض اقسام مترجم کے حاشیوں پر کوئی کوئی تفسیر بھی چڑھی ہوتی ہے، بعض پر عربی مثل جلالین وغیرہ کے اور بعض میں فارسی اور اردو مثل حسینی وغیرہ کے چڑھاتے ہیں ،علی ہذا القیاس اس قسم کے مصاحف کے مس کرنے کا حکم بحق جنب اور محدث کے حرام ہے یا مکروہ اور در صورت کراہت تحریمی ہوگی یا تنزیہی یا جائز بلا کراہت ہے؟ بینوا توجروا۔‘‘
تو اس کا جواب دیتے ہوئے آپ لکھتے ہیں:”محدث کو مصحف چھونا مطلقاً حرام ہے، خواہ اُس میں صرف نظم قرآن عظیم مکتوب ہو یا اُس کے ساتھ ترجمہ وتفسیر ورسم خط وغیرہا بھی کہ ان کے لکھنے سے نامِ مصحف زائل نہ ہوگا آخر اُسے قرآن مجید ہی کہا جائے گا ترجمہ یا تفسیریا اور کوئی نام نہ رکھا جائےگایہ زوائد قرآن عظیم کے توابع ہیں اور مصحف شریف سے جُدا نہیں ولہٰذا حاشیہ مصحف کی بیاض سادہ کو چھُونا بھی ناجائز ہوا بلکہ پٹھوں کو بھی بلکہ چولی پر سے بھی بلکہ ترجمہ کا چھونا خود ہی ممنوع ہے اگرچہ قرآن مجید سے جُدا لکھا ہو۔“ (فتاوی رضویہ ، جلد1،حصہ 2، صفحہ1074، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
قرآن پاک کو چھونے کے احکام بیان کرتے ہوئےعالمگیری میں لکھا ہے:”لایجوزلھماو للجنب والمحدث مس المصحف الابغلاف متجاف عنہ کالخریطۃ والجلد الغیر المشرز لا بما ھو متصل بہ ھو الصحیح ھکذا فی الھدایۃ ۔وعلیہ الفتوی کذا فی الجوھر ۃ النیرۃ ۔والصحیح منع مس حواشی المصحف والبیاض الذی لاکتابۃ علیہ ھکذا فی التبیین“ترجمہ:حیض ونفاس والی کےلیے اورجنب ومحدث (بے وضو)کےلئے قرآن کوچھونا،جائز نہیں، مگر اس سےجدا غلاف کے ساتھ جیسا کہ چمڑےکا تھیلا اور ایسی جلد جو (مصحف کے ساتھ)سلی ہوئی نہ ہو،نہ کہ اس چیز کے ساتھ جو مصحف کے ساتھ متصل ہو یہی صحیح ہے ،اسی طرح ہد ایہ میں ہے اور اسی پر فتوی ہے ، اسی طرح جوہرہ نیرہ میں ہے۔اورصحیح یہ ہےکہ مصحف کے حواشی کواوراس خالی حصہ کو چھونا بھی منع ہے، جس پر کچھ لکھا ہوا نہ ہو،اسی طرح تبیین میں ہے ۔(فتاوی عالمگیر ی ،کتاب الطھارۃ، جلد1، صفحہ38، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے:”جس کو نہانے کی ضرورت ہو اس کو مسجد میں جانا،طواف کرنا، قرآن مجید چھونا ،اگرچہ اس کا سادہ حاشیہ یا جلد یا چولی چھوئے یا بے چھوئے دیکھ کر یا زبانی پڑھنا یا کسی آیت کا لکھنا یا آیت کا تعویذ لکھنا یا ایسا تعویذ چھونا یا ایسی انگوٹھی چھونا یا پہننا ،جیسے مقطعات کی انگوٹھی حرام ہے۔اگر قرآن عظیم جزدان میں ہو تو جزدان پر ہاتھ لگانے میں حرج نہیں،یونہی رومال کسی ایسے کپڑے سے پکڑنا جو نہ اپنا تابع ہو نہ قرآن مجید کا تو جائز ہے،کرتے کی آستین،دوپٹے کی آنچل سے یہاں تک کہ چادر کا ایک کونا اس کے مونڈھے پر ہے دوسرے کونے سے چھونا حرام ہے یہ سب اس کے تابع ہیں جیسے قرآن مجید کے تابع تھی۔“ (بھار شریعت،جلد1،صفحہ326،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
اسی میں ہے:”قرآن کا ترجمہ فارسی یا اردو یا کسی اور زبان میں ہو اس کے بھی چھونے اور پڑھنے میں قرآن مجید ہی کا سا حکم ہے۔“ (بھار شریعت،جلد1،صفحہ327، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟