مجیب:مفتی محمد حسان عطاری
فتوی نمبر:WAT-3275
تاریخ اجراء:15جمادی الاولیٰ1446ھ/18نومبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ سورہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہیں لکھی گئی، اس کی کیا وجہ ہے؟ اور کیا اس کے متعلق کوئی روایت ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سورہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کے متعلق مختلف روایات بیان کی گئی ہیں، جن کی روشنی میں علمائے کرام نے اس کی حکمتیں بیان کی ہیں، جو درج ذیل ہیں :
(1)ترمذی شریف میں ایک طویل حدیث پاک حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے سورہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:”كان إذا نزل عليه الشيء دعا بعض من كان يكتب فيقول: «ضعوا هؤلاء الآيات في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا»وإذا نزلت عليه الآية فيقول:«ضعوا هذه الآية في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا»، وكانت الأنفال من أوائل ما نزلت بالمدينة وكانت براءة من آخر القرآن وكانت قصتها شبيهة بقصتها فظننت أنها منها، فقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يبين لنا أنها منها، فمن أجل ذلك قرنت بينهما ولم أكتب بينهما سطر بسم الله الرحمن الرحيم“ ترجمہ:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپ کاتب کو بلاتے اور ان سے فرماتے:ان آیات کو اس سورت میں رکھو، جس میں اس اس طرح مذکور ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آیت اترتی تو آپ کاتب کو فرماتے: اس کو اس سورت میں رکھو جس میں اس اس طرح مذکور ہے اور سورۃ الانفال ان سورتوں میں ہے جو شروع میں مدینہ میں آپ پر نازل ہوئی، اور براءت ان سورتوں میں سے ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آخر میں نازل ہوئی اور سورہ براءت کا مضمون سورہ انفال کے مضمون سے ملتا جلتا ہے، اس وجہ سے مجھے گمان ہوا کہ شاید براءت(سورہ توبہ)انفال میں داخل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہری وصال ہوا حالانکہ آپ نے سورہ براءت کے متعلق بیان نہ کیا تھا کہ یہ انفال کا حصہ ہے تو اسی وجہ سے میں نے دونوں کو ملا کر لکھا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی۔(سنن الترمذی، ج5،باب: ومن سورة التوبة، ص272،حدیث3086، مطبوعہ مصر)
(2) مستدرک للحاکم میں ہے :”عن علي بن عبد الله بن عباس،قال:سمعت أبي يقول: سألت علي بن أبي طالب رضي الله عنه: لم لم تكتب في براءة بسم الله الرحمن الرحيم؟قال: لأن«بسم الله الرحمن الرحيم أمان وبراءة نزلت بالسيف، ليس فيها أمان“ ترجمہ: حضرت علی بن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ میں نے اپنے والد عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سناانہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ سورہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہیں لکھی گئی؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم امان ہے جبکہ سورہ توبہ تلوار کے ساتھ (جہاد کا حکم لیکر) نازل ہوئی، اس میں امان نہیں ہے۔(مستدرک علی الصحیحین للحاکم ، ج 2، ص360،حدیث3273 ، دار الکتب العلمیۃ،بیروت )
(3)بسم اللہ نہ لکھنے کی ایک وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ عبد اللہ بن احمد نسفی علیہ الرحمہ"تفسیر نسفی" میں لکھتے ہیں :”وقيل اختلف أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال بعضهم الأنفال وبراءة سورة واحدة نزلت في القتال وقال بعضهم هما سورتان فتركت بينهما فرجة لقول من قال هما سورتان وتركت بسم الله لقول من قال هما سورة واحدة“ ترجمہ:اور کہا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے درمیان میں اختلاف ہوا، بعض نے کہا کہ سورہ انفال اور سورہ توبہ مل کر ایک سورت ہے جو جہاد کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ بعض نے کہا کہ دونوں الگ الگ سورتیں ہیں تو دونوں کے درمیان فاصلہ کیا گیا ان کے قول پر عمل کرتے ہوئے جنہوں نے کہا کہ دو الگ سورتیں ہیں اور بسم اللہ کو ترک کیا گیا ان کے قول پر عمل کرتے ہوئے جنہوں نے کہا کہ ایک سورت ہے۔(تفسیر النسفی، ج1،ص661، دار الكلم الطيب، بيروت)
تفسیر نعیمی میں مفسر قرآن مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”اس سورہ میں بسم اللہ نہ لکھنے کی چند وجہیں مفسرین نے بیان فرمائی ہیں:(1)کسی نے حضرت عثمان جامع قرآن سے اس کی وجہ پوچھی کہ آپ نے سورہ تو بہ کو سورہ انفال سے علیحدہ کر کے تو دکھایا ہے مگر بسم اللہ نہیں لکھی، اس کی وجہ کیا ہے۔ فرمایا کہ سورہ انفال ہجرت کے ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی اور سورہ تو بہ آخری دور میں، حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اول بسم اللہ لکھنے کا حکم نہ دیا۔ ہم پوچھ نہ سکے مگر سورہ تو بہ کا مضمون سورہ انفال کے مضمون کے مشابہ تھا کہ یہ دونوں سورتیں ایک ہی سی ہیں۔ یہ بھی احتمال تھا کہ دو ہیں تو ہم نے دونوں احتمالوں کا لحاظ رکھتے ہوئے علیحدہ بھی کیا اور نہیں بھی کیا۔۔۔(2) محمد ابن حنفیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت علی شیر خدا سے پوچھا کہ آپ حضرات نے سورہ توبہ کے اول بسم اللہ کیوں نہ لکھی۔ فرمایا کہ سورہ تو بہ تلوار کے ذریعہ کفار سے امان اٹھانے کے لیے اتری اور بسم اللہ امان کے لیے ہوتی ہے لہٰذا نہ لکھی گئی۔(3) تمام سورتوں کے نازل کرنے پر حضرت جبریل بسم اللہ پڑھتے تھے مگر سورہ تو بہ کے نزول پر نہ پڑھی۔(4) حضور انور کی وفات کے بعد جمع قرآن کے موقع پر حضرات صحابہ میں اختلاف ہوا۔ بعض کا خیال تھا کہ سورہ انفال اور سورہ تو بہ ایک ہی سورت ہے یعنی سبع طوال سے، بعض کا خیال تھا کہ یہ دو سورتیں ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ نہیں فرمایا تھا لہذا دونوں جماعتوں کا لحاظ فرما کر علیحدہ نام تو لکھا گیا مگر بسم اللہ نہ لکھی گئی۔۔۔۔(5)عرب میں دستور تھا اور ہے کہ جب کسی قوم سے معاہدہ چھوڑتے، اعلان جنگ کرنے کے لیے خط لکھتے تو اس کے اول بسم اللہ نہیں لکھتے۔ اس قاعدے سے اس سورہ کے اول میں بسم اللہ نہیں لکھی کہ یہ سورت کفار سے معاہدہ ختم کرنے کے لیے آئی۔(تفسیر نعیمی، ج10، ص135، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟