School Ki Deeni Kitabain Islamiat Waghera Be Wazu Chuna Kaisa?

 

اسکول کی دینی کتابیں اسلامیات وغیرہ بے وضو چھو سکتے ہیں؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-9103

تاریخ اجراء: 18 ربیع الاول 1446 ھ/ 23 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ اسکول کے نصاب میں اسلامیات اورعربی  کی دینی کتابیں بھی پڑھی،پڑھائی جاتی ہیں،ان کتابوں کو بغیر وضو چھونے  اور پڑھنے کا   کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی اسلامی کتب دو طرح کی ہوتی ہیں  :

   (1)بعض کتابیں قرآنِ مجید کی سورتوں اور ان کے ترجمہ پر مشتمل ہوتی ہیں ، ان میں قرآنِ مجید اور اس کے  ترجمہ کی مقدار زیادہ  اور دوسرا   کلام  بہت کم ہوتا ہے، (جیساکہ مختصر تفاسیر و حاشیے والے قرآنِ پاک میں ہوتا ہے)بالغ افراد کے لیے ایسی کتابوں کو  بغیر وضو چھونا  ، ناجائز و گناہ  ہے  ، البتہ بغیر چھوئے زبانی پڑھنے میں حرج نہیں اور نابالغ طلبا کے لیے  بغیر وضو چھونا اگرچہ گناہ نہیں ، لیکن تعلیم  کے طور پر انہیں باوضو حالت میں ہی چھونے کا  کہا جائے ۔

   (2) اسلامیات کی بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں،جن میں آیاتِ قرآنیہ کی مقدار کم ہوتی ہے ،  احادیث اور  دیگر اسلامی مضامین زیادہ ہوتے ہیں ، انہیں بغیر  وضو چھونا ، جائز ہے، البتہ انہیں بھی با وضو ہو کر پڑھنا اور چھونا  ،بہتر ہے۔یادرہے ! اگرچہ ایسی اسلامی کتب کو بے وضو چھونا، جائز ہے ، لیکن جس مقام پرآیت یا اس کا ترجمہ لکھا ہو ، اُس جگہ یا عین اس کی پشت کو بے وضو چھونا، ناجائز و گناہ ہے  ۔

   جس کتاب میں قرآنِ مجید کی مقدار زیادہ ہو ، اس  کوبے وضوچھونا، ناجائز و گناہ ہے، جیسا کہ    اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” محدث (بے وضو  شخص) کو مصحف چھونا مطلقاً حرام ہے ،  خواہ اُس میں صرف نظمِ قرآنِ عظیم مکتوب ہو یا اُس کے ساتھ ترجمہ وتفسیر ورسم خط وغیرہا بھی کہ ان کے لکھنے سے نامِ مصحف زائل نہ ہوگا ، آخر اُسے قرآن مجید ہی کہا جائے گا ،ترجمہ یا تفسیر یا اور کوئی نام نہ رکھا جائےگا ۔یہ زوائد قرآن عظیم کے توابع ہیں اور مصحف شریف سے جُدا نہیں ولہٰذاحاشیہ مصحف کی بیاض سادہ کو چھُونا بھی ناجائز ہوا ،  بلکہ  پٹھوں  کو بھی ،  بلکہ چولی پر سے بھی ،  بلکہ ترجمہ کا چھونا خود ہی ممنوع ہے ،  اگرچہ قرآن مجید سے جُدا لکھا ہو۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد1 ،  صفحہ1074،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اسلامی مضامین ، احادیث و مسائل پر مشتمل کتب کو بے وضو چھونا، جائز ہے ، چنانچہ بحر الرائق  میں ہے:”وفي الخلاصة يكره مس كتب الأحاديث والفقه للمحدث عندهما وعند أبي حنيفة الأصح أنه لا يكره ترجمہ : اور خلاصہ میں ہے کہ صاحبین  عَلَیْہِمَا الرَّحْمَۃ کے نزدیک  بے وضو شخص   کا کتب احادیث  و  فقہ کو چھونا ، مکروہ ہےاور اصح قول کے مطابق  امام  اعظم عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کے نزدیک  کراہت نہیں ہے ۔(بحر الرائق ، کتا ب الطھارۃ ، با ب الحیض ، جلد 1 ،صفحہ 212، مطبوعہ بیروت)

   مراقی الفلاح مع طحطاوی میں ہے:’’( و) القسم (الثالث) وضوء(مندوب) في أحوال كثيرة كمس الكتب الشرعية ورخص مسها للمحدث إلا التفسير كذا في الدرر...قوله:”كمس الكتب الشرعية “ نحو الفقه والحديث والعقائد فيتطهر لها تعظيما قال الحلواني إنما نلنا هذا العلم بالتعظيم فإني ما أخذت الكاغد إلا بطهارة والسرخسي حصل له في ليلة داء البطن وهو يكرر درس كتابه فتوضأ تلك الليلة سبع عشرة مرة ترجمہ:اور وضو کی تیسری قسم وہ وضو جو کئی احوال میں مستحب ہو ، جیسے شرعی کتابوں کو چھونااور علما نے محدث یعنی بے وضو کو انہیں(مذکورہ کتب شرعیہ کو) چھونے کی رخصت دی ہے، سوائے کتب تفسیر کے ، اسی طرح درر میں ہے۔ مصنف عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کا قول :’’ جیسا کہ کتب شرعیہ کو چھونا ‘‘مثلاً: فقہ، حدیث اور عقائد کی کتابیں ۔ ہاں  ان کی تعظیم کی خاطر پاکی حاصل کر لے۔ علامہ حلوانی  عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے فرمایا ہم نے اس علم کو ادب و تعظیم  کے ذریعے حاصل کیا ہے، بے شک میں نے تو  کاغذ بھی پاکی کی حالت میں ہی اٹھایا ہے۔ اور  امام سرخسی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کے بارے میں ہے کہ انہیں ایک رات پیٹ کی بیماری تھی اور کسی کتاب کے سبق کا تکرار کر رہے تھے، تو انہیں سترہ بار وضو کرنا پڑا۔(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح،کتاب الطھارۃ، صفحہ83، مطبوعہ بیروت )

   اور مَوْضَع ِآیت کو چھونا  ناجائز ہونے کے متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ان کتب التفسیر لایجوز مس موضع القرآن منھا ولہ ان یمس غیرہ وکذا کتب الفقہ اذا کان فیھا شیئ من القرآن بخلاف المصحف فان الکل فیہ تبع للقرانترجمہ: کتب تفاسیر میں جہاں قرآنِ پاک  لکھا ہو اس جگہ کو چھونا، جائز نہیں، بے وضو شخص دوسری جگہ کوچھوسکتاہے ،  یہی حکم کتبِ فقہ کاہے جب ان میں قرآنِ پاک میں سے کچھ لکھا ہو (تو اس جگہ کو نہیں چھو سکتے ) ، بخلاف مصحف کے کہ اس میں سب قرآن کے تابع ہیں۔ (ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب الطھارۃ ، جلد1، صفحہ353، مطبوعہ  کوئٹہ)

      جس جگہ آیت لکھی ہو اُس کے بالمقابل پشت کو چھونا  بھی نا جائزہے،چنانچہ امامِ اہل سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:” کتاب یا اخبار جس جگہ آیت لکھی ہے خاص اُس جگہ کو بلاوضوہاتھ لگانا، جائز نہیں ، اُسی طرف ہاتھ لگایا جائے جس طرف آیت لکھی ہے ، خواہ اس کی پشت پر  ، دونوں ناجائز ہیں۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد4، صفحہ366،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم