Samri Jadugar Kon Tha

سامری کے متعلق تفصیل

مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-558

تاریخ اجراء: 16رجب المرجب  1443ھ/18فروری2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   سامری کون تھا؟ حضرت موسی علیہ السلام نے اس پر ناراضی کا اظہار کیوں کیا تھا؟ اور اس کا کیا حشر ہوا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عجائب القرآن صفحہ 113 پر ہے:” بنی اسرائیل میں ایک حرامی شخص تھا جس کا نام سامری تھا جو طبعی طور پر نہایت گمراہ اور گمراہ کن آدمی تھا۔ اس کی ماں نے برادری میں رسوائی و بدنامی کے ڈر سے اس کو پیدا ہوتے ہی پہاڑ کے ایک غار میں چھوڑ دیا تھا اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس کو اپنی انگلی سے دودھ پلا پلا کر پالا تھا۔ اس لئے یہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو پہچانتا تھا۔ اس کا پورا نام ''موسیٰ سامری'' ہے۔جن دنوں حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر معتکف تھے۔ سامری نے آپ کی غیر موجودگی کو غنیمت جانا اور یہ فتنہ برپا کردیا کہ اس نے بنی اسرائیل کے سونے چاندی کے زیورات کو مانگ کر پگھلایا اور اس سے ایک بچھڑا بنایا۔ اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے قدموں کی خاک جو اس کے پاس محفوظ تھی اس نے وہ خاک بچھڑے کے منہ میں ڈال دی تو وہ بچھڑا بولنے لگا۔ پھر سامری نے بنی اسرائیل سے یہ کہا کہ اے میری قوم! حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر خدا عزوجل کے دیدار کے لئے تشریف لے گئے ہیں۔ حالانکہ تمہارا خدا تو یہی بچھڑا ہے۔ لہٰذا تم لوگ اسی کی عبادت کرو۔ سامری کی اس تقریر سے بنی اسرائیل گمراہ ہو گئے اور بارہ ہزار آدمیوں کے سوا ساری قوم نے چاندی سونے کے بچھڑے کو بولتا دیکھ کر اس کو خدا مان لیا ۔“ اس وجہ سے حضرت موسی علیہ السلام نے اس پر ناراضی کا اظہار فرمایا۔

   اس کے حشر کے متعلق قرآن پاک میں ہے(قَالَ فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِی الْحَیٰوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ ۪) ترجمہ کنز الایمان : کہا تو چلتا بن کہ دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہ ہے کہ تو کہے چھو نہ جا۔

   اس کے تحت تفسیر خزائن میں ہے: یعنی سب سے علیٰحدہ رہنا نہ تجھ سے کوئی چھوئے نہ تو کسی سے چھوئے ، لوگوں سے ملنا اس کے لئے کلّی طورپر ممنوع قرار دیا گیا اور ملاقات ، مکالمت ، خرید و فروخت ہر ایک کے ساتھ حرام کر دی گئی اور اگر اتفاقاً کوئی اس سے چھو جاتا تو وہ اور چھونے والا دونوں شدید بخار میں مبتلا ہوتے ، وہ جنگل میں یہی شور مچاتا پھرتا تھا کہ کوئی چھو نہ جانا اور وحشیوں اور درندوں میں زندگی کے دن نہایت تلخی و وحشت میں گزارتا تھا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم