مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-2077
تاریخ اجراء:
01ربیع الثانی1445 ھ/17اکتوبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
سنن ابی داؤد میں حدیث ہے:” وعن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله
عليه وسلم: إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير وليضع يديه قبل ركبتيه“ رواه
أبو داود“ ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی
سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے، چاہیےکہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے
پہلے رکھے۔“ اس حدیث کو ابو داؤد نے روایت کیا۔
اس حدیث کے متعلق کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
احناف، امام شافعی ،امام احمد اور جمہور ائمہ کا موقف یہی
ہے کہ سجدے میں جاتے وقت پہلے گھٹنوں کو رکھے اور پھر ہاتھوں کو،اس کی تائید میں متعد د احادیث و آثار مروی ہیں،خود سنن ابی داؤد میں
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ
کی روایت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا سجدے میں جاتے
وقت ہاتھوں سے پہلے گھٹنوں کو رکھنا مذکور ہے،یہی روایت
ترمذی ،ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ وغیرہ کتب احادیث
میں بھی موجود ہے۔
سنن ابی داؤد میں ہی حضرت
وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، فرماتے
ہیں:”رأيت النبي صلى الله عليه وسلم إذا سجد وضع
ركبتيه قبل يديه، وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه“ترجمہ:میں نے
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب
آپ سجدہ کرتے ،تو ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھتے ،اور جب سجدہ سے قیام کے لئے اٹھتے ،گھٹنوں سے پہلے
ہاتھوں کو اٹھا تے۔(سنن ابو داؤد ،
ج01،ص222،رقم838،مطبوعہ بیروت) (سنن ترمذی ،ج01،ص329،رقم 268،دار
الرسالۃ العلمیۃ) (سنن ابن ماجہ ،ج01،ص286،رقم882،دار
احیاء الکتب العربیۃ) (صحیح ابن خزیمہ
،ج01،ص342،رقم 626،المکتب الاسلامی)
اس سے اگلی روایت میں
یہی مضمون الفاظ کے فرق کےساتھ
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے،آپ
فرماتے ہیں:”فلما سجد وقعتا ركبتاه إلى
الأرض قبل أن تقع كفاه“ترجمہ:سرکارِدو عالم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
جب سجدہ فرماتے ،تو ہتھیلیوں سے پہلے آپ علیہ
الصلوۃ والسلام گھٹنے زمین پر رکھتے۔(سنن ابو داؤد ، ج01، ص222،رقم839،مطبوعہ بیروت)
اسی حدیث پر جمہور علماء کا عمل
ہونے کے متعلق امام ترمذی لکھتے ہیں:” والعمل عليه عند أكثر أهل
العلم؛ يرون أن يضع الرجل ركبتيه قبل يديه، وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه“ترجمہ:اکثر اہل علم
کا عمل اسی پر ہے،اوران کی رائے یہ ہے کہ سجدے میں جاتے وقت ہاتھوں سے پہلے گھٹنوں کو رکھے،اور
اٹھتے وقت گھٹنو ں سے پہلے ہاتھوں کو
اٹھائے۔(سنن ترمذی ،ج01،ص329،رقم 268،دار
الرسالۃ العلمیۃ)
حتی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ تعالی عنہ سے خود حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ کے
موافق حدیث پاک مروی ہے،چنانچہ علامہ طحاوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:” إذا سجد أحدكم فليبدأ بركبتيه
قبل يديه ولا يبرك بروك الفحل فهذا خلاف ما روى الأعرج عن أبي هريرة رضي الله عنه ،
ومعنى هذا لا يبرك على يديه كما يبرك البعير على يديه“ترجمہ:جب تم
میں سے کوئی سجدہ کرے تو
ہاتھوں سے پہلے گھٹنوں کو رکھے، اونٹ کی طرح نہ بیٹھے،یہ
روایت اس روایت کے خلاف ہے جو کہ اعرج نے حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی،اور اس حدیث کا
معنی یہ ہےکہ پہلے ہاتھوں کو نہ رکھو، جس طرح اونٹ
بیٹھتے ہوئے رکھتا ہے۔(شرح معانی الآثار ،ج01،ص 255،دار عالم الکتب)
اور اصول حدیث کے مطابق جب ایک
راوی سے روایت میں اختلاف ہو ،اور دوسرے راوی سے اختلاف ِ روایت نہ ہو،توجس
راوی سے اختلافِ روایت نہ ہو،اس راوی کی
روایت کو لینا اولی ہوتا ہے۔علامہ طحاوی علیہ
الرحمہ لکھتے ہیں : ” فلما اختلف عن النبي صلى الله عليه وسلم فيما يبدأ بوضعه في
ذلك نظرنا في ذلك فكان سبيل تصحيح معاني الآثار: أن وائلا لم يختلف عنه وإنما
الاختلاف عن أبي هريرة رضي الله عنه فكان ينبغي أن يكون ما روي عنه لما تكافأت
الروايات فيه ارتفع وثبت ما روى وائل فهذا حكم تصحيح معاني الآثار في ذلك“ترجمہ:جب حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کےمتعلق احادیث مختلف ہوگئیں کہ
سجدہ میں جاتے وقت پہلے ہاتھوں کو رکھے یا گھٹنوں کو،تو ہم نے اس میں غور و فکر کیا،پس ان
روایات میں تصحیح کی سبیل یہی ہے کہ
حضرت وائل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت مختلف نہیں
،اختلاف حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی
ہے،پس یہاں ضرور حضرت وائل
رضی اللہ تعالی عنہ
کی جو روایت ہے اس پر حضرت وائل اور ابو ہریرہ رضی
اللہ تعالی عنہما دونوں کا اتفاق ہے،پس
یوں اختلاف مرتفع ہوگیا اور حضرت وائل رضی اللہ
تعالی عنہ سے مروی روایت ثابت ہوگئی۔(شرح معانی الآثار
،ج01،ص 255،دار عالم الکتب)
علامہ عینی علیہ الرحمہ نے
بھی اسے ذکر کرکے برقراررکھا ہے،چنانچہ لکھتے ہیں:” وروى الطحاوي، وقال: نا ربيع المؤذن، نا أسد بن موسى، نا
ابن فضيل، عن عبد الله بن سعد، عن جده، عن أبي هريرة، أن النبي - عليه السلام-
قال: فإذا سجد أحدكم فليبدأ بركبتيه قبل يديه، ولا يبرك كما يبرك البعير على يديه.ثم قال: إن وائلاَ لم يُختلف عنه، وإنما الاختلاف عن أبي هريرة، فكان ينبغي
أن يكون ما روي عن وائل أثبت“مضمون
وہی ہے جو امام طحاوی کی مذکورہ بالا عبارت کا ہے۔(سنن ابی داؤد للعینی ،ج04،ص25، مکتبۃ
رشد، ریاض )
اس کا ایک جواب یہ بھی
دیا گیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ
کی حدیث منسوخ ہے اور حضرت وائل رضی اللہ تعالی عنہ
کی ناسخ ،کہ حضرت ابو سعید
کی روایت سے اس کی تعیین ہوتی ہے
آ پ نےفرمایا کہ ہم پہلے
سجدے میں جاتے ہوئے گھٹنو ں سے
پہلےہاتھوں کو رکھتے تھے پھر ہمیں حکم دیا گیا کہ پہلے گھٹنوں
کو رکھا جائے۔
اس کےعلاوہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت
کا ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے جو روایت اعرج کے طریق سے
مروی ہے کہ:” إذا سجد أحدكم، فلا يبرك كما
يبرك البعير، وليضع يديه قبل ركبتيه“اس میں راوی کو وہم لاحق ہوا ہے اور
اس نے (ولا یضع) کہنے
کی بجائے (ولیضع)کہہ
دیا،کیونکہ حدیث کے پہلے حصے میں یہ مذکور ہے کہ
اونٹ کی طر ح نہ بیٹھے اور اونٹ پہلے آگے والی ٹانگوں کو
ہی رکھتا ہے،پھر آگے یہ فرمانا کہ ”وليضع يديه قبل ركبتيه“یعنی سجدے میں جاتےوقت پہلے اپنے ہاتھوں کو
رکھو،کس طرح درست ہو سکتا ہے،یہاں اصل عبارت یہ تھی ”ولايضع يديه قبل ركبتيه“ یعنی اونٹ کی طرح اپنے ہاتھوں کو پہلے
نہ رکھو بلکہ پہلے گھٹنو ں کو رکھو۔اس کی تائید حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی دوسری روایت بھی کرتی
ہے کہ ” إذا سجد أحدكم فليبدأ بركبتيه، ولا يبرك بروك
الجمل“پس اس صورت میں دونوں روایتوں
میں کوئی تضاد باقی نہیں رہے گا۔بالفرض اگر اس
توجیہ کو قبول نہ بھی کیا جائے جب بھی پہلی دو
توجیہات سے حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ کی
روایت کی ترجیح ثابت
ہوتی ہے۔
مذکورہ تمام تفصیل کو بیان کرتے
ہوئے شاہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ لمعات التنقیح اور
فتح الرحمن (جس کااصل نام فتح المنان ہے) میں لکھتے ہیں:”هذا يخالف الحديث الأول، وإليه ذهب مالك والأوزاعي وأحمد في
رواية عنه وطائفة من أئمة الحديث عملًا بهذا الحديث، وأما الأول وهو وضع الركبتين
قبل اليدين فعليه جمهور الأئمة وأبو حنيفة والشافعي وأحمد بن حنبل -رحمهم اللّٰه
أجمعين- عملًا بحديث وائل بن حجر، قالوا: وهو أثبت من حديث أبي هريرة -رضي اللّٰه
عنه-، وإذا اختلف الحديثان اختلاف تضاد، فالسبيل أن يؤخذ بالأقوى منهما۔
وجاء في (صحيح ابن خزيمة): كان رسول اللّٰه -صلى اللّٰه
عليه وسلم- إذا سجد بدأ بركبتيه، وجاء في رواية سعد بن أبي وقاص -رضي اللّٰه
عنه- كما رواه ابن أبي شيبة والبيهقي في (السنن)، وفي بعض الشروح: في رواية أبي
سعيد: كنا نضع اليدين قبل الركبتين، فأمرنا بالركبتين قبل اليدين، فعلى هذا يكون
حديث وائل بن حجر ناسخًا لحديث أبي هريرة كما قال المؤلف.
هذا وقد قيل: إن في حديث أبي هريرة -رضي اللّٰه عنه-:
(إذا سجد أحدكم، فلا يبرك كما يبرك البعير، وليضع يديه قبل ركبتيه) ، تناقضًا في
نفسه، فكأنه وهم بعض الرواة، وحرّف (ولا يضع) بقوله: (وليضع)؛ لأنه إذا وضع يديه
قبل ركبتيه فقد برك بروك البعير؛ لأن البعير يضع يديه قبل ركبتيه عند البروك،
فيوافق حديث وائل بن حجر، على أنه قد جاء عن أبي هريرة -رضي اللّٰه عنه-
أيضًا: أن رسول اللّٰه -صلى اللّٰه عليه وسلم- قال: (إذا سجد أحدكم
فليبدأ بركبتيه، ولا يبرك بروك الجمل)، ذكره التُّورِبِشْتِي“ترجمہ:یہ حدیث پہلی حدیث (پہلے
گھٹنے رکھنے والی روایت )کے خلاف ہے،اس حدیث پر عمل
کرتے ہوئے امام مالک ،اوزاعی،ایک روایت کے مطابق امام احمداور
محدثین کی ایک جماعت نے
یہ موقف اختیار کیا،جبکہ پہلی یعنی ہاتھوں سے پہلےگھٹنے رکھنے
والی وائل بن حجر کی روایت پر جمہور ائمہ،امام اعظم،امام
شافعی اور امام احمد نے عمل کرتے ہوئے اسی موقف کو اختیار
کیا،اور فرمایا وائل بن حجر کی روایت حضرت ابو ہریرہ
کی روایت سے اثبت ہے،کہ اصول یہ ہے جب دو روایتوں
میں اس طرح اختلاف ہوجائے کہ ان کے مابین تطبیق ممکن نہ ہو،تو
اقوی روایت پر عمل کیا
جاتا ہے۔
صحیح ابن خزیمہ میں مروی ہے کہ حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سجدہ فرماتے تو پہلے گھٹنوں کو
رکھتے، جضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے
جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ اور امام بیہقی نے سنن
میں اسے روایت کیا،اور بعض شروح میں حضرت ابو سعید
کی روایت میں یہ
مذکور ہے کہ ہم سجدے میں جاتے وقت
گھٹنوں سے پہلے ہاتھوں کو رکھتے تھے پھر ہمیں پہلے گھٹنوں کو رکھنے کا حکم
دیا گیا،اس روایت کے مطابق حضرت وائل کی روایت حضرت
ابو ہریرہ کی روایت کی ناسخ ہوگی جیسا کہ
مؤلف یعنی صاحب مصابیح نے فرمایا۔
اسے محفوظ کرلو۔نیز یہ
بھی کہا گیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ کی روایت کہ اونٹ کی طرح نہ بیٹھو اور پھر
فرمایا کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھوں کو رکھو ، میں تضاد ہے ،شاید
کہ یہ راویوں کے وہم کی وجہ سے ہو،اور انہوں نے ولا یضع کو ولیضع سے
تبدیل کردیا ہو،کیونکہ جب گھٹنوں سے پہلے ہاتھوں کو
رکھے گا تو گویا کہ وہ اونٹ کی طرح بیٹھے گا،کیونکہ
اونٹ بیٹھتے وقت گھٹنوں سے پہلے ہاتھوں کو ہی رکھتا ہے،پس
یہ حضرت وائل کی حدیث کے موافق ہوگیا،مزید یہ
کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ بھی
مروی ہے کہ جب تم میں سےکوئی سجدہ کرے تو ہاتھوں سے پہلے گھٹنوں کو رکھے،اونٹ کی
طرح نہ بیٹھے،اسے تورپشتی نےذکر کیا۔(لمعات التنقیح ،ج03،ص33، 34،دار النوادر)(فتح الرحمن
، ج 02، ص153، 154،مطبوعہ ہند)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟