Sajda e Tilawat Se Mutaliq Ahkam

سجدہ تلاوت  سے متعلق چند احکام

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fam-0200

تاریخ اجراء:07جمادی الاولی5144ھ/22 نومبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ

   (1)اگر کسی شخص کے  کئی سجدہ تلاوت ادا کرنے سے رہ گئے ہوں،تو کیا اُن تمام سجدوں کی تلافی کے لیےصرف  ایک سجدہ کرلینا کافی ہوجائے گا،یا  جتنے سجدے  واجب ہوئے ہیں، اُتنے ہی ادا کرنے ہوں گے؟

   (2) اگر طالبِ علم  سبق پڑھتے ہوئے،بار بار  آیتِ سجدہ کی تکرار کرے،تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟کیا  اسے  ایک سجدہ  کرنا ہی کافی ہوگا یا جتنی بار آیت پڑھی ہے،ان سب کی تعداد کے برابر سجدے کرنے ہوں گے؟

   (3)  آیتِ سجدہ  کی تلاوت سےسجدہ تلاوت واجب ہونے  کے لیےاپنے کانوں تک آواز پہنچنا شرط ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1) جب کسی شخص پر کئی سجدہ تلاوت واجب ہوں، تو اُن تمام سجدوں کی تلافی کے لیےصرف ایک سجدہ  کرلینا ہرگز کافی نہیں ہوگا، بلکہ جتنے سجدے واجب ہوئے ہوں،اُتنے ہی ادا کرنے ہوں گے۔البتہ اگر  کسی شخص کو اپنے اوپر واجب سجدوں کی صحیح معین  تعداد معلوم نہ ہو،تو اب ایسا شخص غالب گمان کرلے، جتنے سجدوں پر اُس کا گمان جمے، اُتنے سجدے ادا کرلے ،تو اِس سے  وہ برئ الذمہ ہوجائے گا۔خیال رہے!آیتِ سجدہ  پڑھنے یا سننے سے اگرچہ   فوراً  سجدہ کرنا واجب  نہیں ہوتا ،لیکن   بلاعذر ادائیگی میں تاخیر کرنا ، مکروہِ تنزیہی یعنی ناپسندیدہ عمل  ضرور ہے کہ بعد میں بھول جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ،لہذاافضل وبہتر  یہی ہے کہ اگر کوئی عذر نہ ہو،تو  سجدہ تلاوت فورا ً کرلیا جائے۔یہ  مذکورہ حکم نماز کےباہر آیتِ سجدہ کی تلاوت کا ہے،اگر نماز میں تلاوت کے دوران آیتِ سجدہ پڑھی ،تو اُس کا سجدہ نماز میں ہی  فوراً کرنا واجب ہے،یہاں تک کہ دو  تین آیت سے زیادہ تاخیر  کرنا  گناہ ہے ۔

   (2)ا ٓیتِ سجدہ کے بار بار تکرار کرنے سے کب ایک  سجدہ تلاوت   کافی ہوگا اور کب نہیں ،اس کے متعلق اصول یہ ہے کہ  اگر ایک مجلس میں ایک ہی آیتِ سجدہ کی تکرار کی جائے، تو اِس سے ایک ہی سجدہ تلاوت واجب ہوگا، اور اگر آیتِ سجدہ تبدیل ہو جائے یا مجلس تبدیل ہو جائے، تو اب ایک سجدہ کافی نہ ہوگا۔اس اصول کے پیش نظر اگر کوئی طالب علم ایک مجلس میں  ایک ہی آیتِ سجدہ کی تکرار کرے، تو اُس پر ایک ہی سجدہ واجب ہوگا،لیکن اگر ایک مجلس میں چند آیاتِ سجدہ کی تلاوت کرے،یا الگ الگ مجلس میں  ایک ہی آیتِ سجدہ کی تکرار کرے ، تو اب ایک سجدہ کافی نہ ہوگا، بلکہ ایک مجلس میں جتنی مختلف آیاتِ سجدہ پڑھی ہیں یا ایک سے زائد مجلسوں میں جتنی بار ایک آیت ِسجدہ کی تکرار کی ہے ،اسی کے حساب سے سجدے واجب ہو ں گے ۔

   (3) سجدہ تلاوت،آیتِ سجدہ کی قراءت کرنے  یا سننے سے لازم ہوتا ہے ۔قراءت  سے سجدہ تلاوت کے وجوب میں یہ   شرط ہے کہ کم از کم اتنی آواز سے پڑھے کہ اگر کوئی عذر یعنی شور و غل، بہرا پن وغیرہ   نہ ہو،تو   پڑھنے والا خود سُن لے کہ اصل پڑھنا یہی ہے ۔بغیر آواز کے  صرف زبان ہلانا، قراءت کے احکام کے اعتبار سے در حقیقت پڑھنا ہی  نہیں،لہذا اگر کسی نے اس طرح  آیتِ سجدہ پڑھی کہ آواز اصلاً  پیدا نہ ہوئی ،صرف زبان اور ہونٹ ہلے ،تو اس سے سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوگا۔

   جن واجب الادا اُمور میں حساب و شمار یاد نہ  رہے ہوں ،تو ان امور میں شریعت یہ حکم دیتی ہے کہ تخمینے اور ظن غالب  پر بنیاد رکھی جائے،جیسا کہ جس شخص کو  اپنی قضا نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو، تو اس کے لیےحکم  شرعی ہے کہ وہ غالب گمان پر عمل کرے،چنانچہ تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:’’وفي الحاوي لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه ‘‘ترجمہ:اور حاوی میں ہے کہ جو شخص فوت ہوجانے والی نمازوں کی تعداد نہ جانتا ہو، تو وہ اپنے غالب گمان پر عمل کرے۔(تبیین الحقائق،جلد1،باب قضاء الفوائت ،صفحہ119،مطبوعہ قاهرہ)

   بیرون نماز سجدہ تلاوت کا وجوب فوری نہیں،البتہ بلا عذر تاخیر مکروہ تنزیہی ہے،جیسا کہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:’’(وھی علی التراخی)علی المختار،ویکرہ  تاخیرھاتنزیھا(ان لم تکن صلوتیۃ)فعلی الفور ‘‘ترجمہ:اور مختار قول کے مطابق سجدۂ تلاوت تراخی کے ساتھ واجب ہوتا ہےاور اس میں تاخیر کرنا، مکروہ تنزیہی ہے،جبکہ نماز والا نہ ہو  کہ نماز والے سجدہ تلاوت کا وجوب فوری ہے۔(تنویر الابصار مع در مختار ،جلد2، صفحہ704،703،مطبوعہ کوئٹہ)

   اس کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار  میں فرماتے ہیں:’’قولہ( تنزیھا)لانہ بطول الزمان قد ینساھا ولو کانت الکراھۃ تحریمیۃ لوجبت علی الفور ولیس کذلک ، ۔۔۔قولہ:(فعلی الفور)جواب شرط مقدر  تقدیرہ  فان کانت صلوتیۃ فعلی الفورثم تفسیر الفور عدم طول المدۃ بین التلاوۃ والسجدۃ بقراءۃ اکثر من آیتین أو ثلاث ‘‘ملتقطاً۔ترجمہ:شارح علیہ الرحمۃ  کا قول:سجدہ تلاوت میں  تاخیر کرنا، مکروہ تنزیہی ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ طویل ہوجانے کے سبب ممکن ہے کہ قاری  سجدہ تلاوت کرنا بھول جائے،اور اگر یہ کراہت تحریمی ہوتی،تو اس پر سجدہ تلاوت کرنا فوراً واجب ہوتا، لیکن یہاں معاملہ ایسا نہیں۔شارح علیہ الرحمۃ کا قول’’وجوب فوری ہے‘‘ یہ شرطِ مقدر کا جواب ہے ،جس کی تقدیر یہ ہے کہ  اگر سجدہ نماز والا ہو، تو وجوب فوری ہے،پھر فوری وجوب کی تشریح یہ ہے کہ آیت سجدہ کی تلاوت اور سجدہ   میں دو تین آیت  کی قراءت سے زیادہ  وقفہ نہ ہو۔(ردالمحتار علی الدر المختار،جلد2،صفحہ704،703،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’سجدہ صلوٰتیہ جس کا ادا کرنا نماز میں واجب ہو،  اس کا وجوب  علی الفور ہے ،یہاں تک کہ دو تین  آیت سے زیادہ  تاخیر گناہ ہے اورغیر صلوٰتیہ میں بھی افضل و اسلم  یہی ہے کہ فورا ً ادا کرے، جبکہ کوئی عذر نہ ہو  کہ اٹھا رکھنے میں بھول پڑتی ہے ’’وفی التاخیرآفات‘‘ (اور تاخیر میں آفات ہیں)ولہذا علماء نے اس کی تاخیر کو  مکروہ تنزیہی  فرمایا، مگر ناجائز نہیں۔ ‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ233 ،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   ایک ہی مجلس میں ایک ہی آیتِ سجدہ کو بار بار پڑھنے سے ایک ہی سجدہ تلاوت کافی ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع در مختار  میں ہے:”(و لو کررھا فی مجلسین، تکررت، و فی مجلس) واحد (لا) تتکرر بل کفتہ واحدۃ ۔۔۔والأصل أن مبناها على التداخل دفعا للحرج بشرط اتحاد الآية والمجلس ترجمہ: اگر کسی شخص نے دو مجلسوں میں آیتِ سجدہ کا تکرار کیا، تو اس پر تکرار کے ساتھ سجدہ تلاوت واجب ہوں گے اور اگر ایک ہی مجلس میں اس نے آیتِ سجدہ کی تکرار کی تو  اس کے لیے ایک ہی سجدہ تلاوت کافی ہوگا۔۔۔اور سجدہ تلاوت کے واجب ہونے میں اصل تداخل ہے ،حرج کو دور کرنے کے لیے،اس شرط کے ساتھ کہ آیت اور مجلس ایک ہی ہو۔(تنویر الابصار مع در مختار، جلد2، کتاب الصلاۃ،  صفحہ712-713، دار المعرفہ،بیروت)

   در مختار کی مذکورہ عبارت ’’بشرط اتحاد الآیۃ والمجلس‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں ارشاد فرماتے ہیں:’’أي بأن يكون المكرر آية واحدة في مجلس واحد، فلو تلا آيتين في مجلس واحد أو آية واحدة في مجلسين فلا تداخل ‘‘ترجمہ:یعنی  ایک مجلس میں ایک آیت کو بار بار پڑھا جائے،لہذا اگر ایک مجلس میں دو آیتوں کی تلاوت کی ،یاایک آیت  کی تلاوت دو مجلسوں میں کی تو اب تداخل نہیں ہوگا (لہذا ایک سجدہ کافی نہ ہوگا(رد المحتار علی الدر المختار، جلد2، کتاب الصلاۃ،  صفحہ713، دار المعرفہ،بیروت)

   ملتقی الابحراور اس کی شرح مجمع الانہر میں ہے:’’(ولو كرر) تلاوة (آية واحدة) أو سمعها من واحد أو متعدد (في مجلس واحد كفته سجدة واحدة وإن بدلها) أي آية السجدة (أو المجلس لا) أي لا تكفيه سجدة واحدة‘‘ترجمہ:اور اگرایک مجلس میں  ایک آیت سجدہ کی  تکرار کی یا اسے ایک یا چند لوگوں سے سنا،تو اسے ایک سجدہ کافی ہے،اور اگر آیت سجدہ یا مجلس بدل دی، تو اب ایک سجدہ  کافی نہیں  ہوگا۔(ملتقی الابحر مع مجمع الانھر،جلد1،باب سجود التلاوۃ،صفحہ158، دار إحياء التراث العربي)

   بہار شریعت میں ہے:’’ایک مجلس میں سجدہ کی ایک آیت کو بار بار پڑھا یا سنا ،تو ایک ہی سجدہ واجب ہوگا، اگرچہ چند شخصوں سے سنا ہو۔ يوہيں اگر آیت پڑھی اور وہی آیت دوسرے سے سنی بھی جب بھی ایک ہی سجدہ واجب ہوگا۔ ۔۔ مجلس میں آیت پڑھی یا سُنی اور سجدہ کر لیا ،پھر اسی مجلس میں وہی آیت پڑھی یا سُنی تو وہی پہلا سجدہ کافی ہے۔‘‘ (بھار شریعت ، جلد1، حصہ 4،صفحہ735، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   قراءت کے لیےکم از کم اتنی آواز سے پڑھنا ضروری ہے کہ اپنے کان سن لیں،جیسا کہ رد المحتار  علی الدر المختار میں ہے:”اعلم انھم اختلفوا فی حد وجود القراء ۃ ۔۔۔فشرط الھندوانی والفضلی  لوجودھا :خروج صوت یصل الی اذنہ،وبہ قال الشافعی۔۔۔ واختار شیخ الاسلام  وقاضیخان، وصاحب  المحیط والحلوانی  قول الھندوانی“ترجمہ :جان لو کہ فقہائے کرام کا اس بات میں اختلاف ہے کہ پڑھنا کب پایا جائے گا ، علامہ ہندوانی اور امام فضلی رحمھما اللہ تعالی نے   پڑھنے کی تعریف میں (کم از کم )اتنی آواز کے نکلنے کی شرط لگائی ہے  جو پڑھنے والے کے اپنے کان تک پہنچے  اور امام شافعی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ،  شیخ الاسلام ، امام قاضی خان ، صاحب محیط برہانی ، اور علامہ شمس الائمہ حلوانی رحمھم اللہ اجمعین نے علامہ ہندوانی کے قول کو اختیار فرمایا ہے  ۔ (رد المحتارعلی الدرالمختار ، جلد2، صفحہ 308،  دار المعرفہ ، بیروت)

   بغیر آواز نکالےصرف زبان ہلانے کو پڑھنا نہیں کہتے،جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے:’’آہستہ پڑھنے کے یہ معنیٰ ہیں کہ اپنے کان تک آواز آنے کے قابل ہو اگر چہ بوجہ اس کے کہ یہ خود بہرا ہے یا اس وقت کوئی غُل وشور ہورہا ہے کان تک نہ آئے اور اگر آواز اصلاً پیدا نہ ہوئی تو صرف زبان ہلی تو وہ پڑھنا، پڑھنا نہ ہوگا ۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ332،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   آیت سجدہ کی قراءت سے سجدہ تلاوت کب واجب ہوگا،اس کے متعلق فتاوی عالمگیری  میں ہے: ’’رجل قرأ آية السجدة لا يلزمه السجدة بتحريك الشفتين وإنما تجب إذا صحح الحروف وحصل به صوت سمع هو ۔۔۔كذا في فتاوى قاضي خان‘‘ ترجمہ:کسی شخص نے آیت سجدہ کی قراءت کی،تو اس پر صرف ہونٹ ہلانے سے سجدہ لازم نہیں ہوگا،بلکہ سجدہ اس وقت واجب ہوگا جب وہ حروف کو صحیح ادا کرے  اور اس کے پڑھنے سے اتنی آواز پیدا ہو جس کو وہ خود سن لے۔ (الفتاوی الھندیۃ،جلد1،الباب الثالث عشر في سجود التلاوة،صفحہ132،دارالفکر،بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:’’ آیت سجدہ پڑھنے یا سننے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے، پڑھنے میں یہ شرط ہے کہ اتنی آواز سے ہو کہ اگر کوئی عذر نہ ہو تو خود سُن سکے۔۔۔ اگر اتنی آواز سے آیت پڑھی کہ سن سکتا تھا مگر شور و غل یا بہرے ہونے کی وجہ سے نہ سنی تو سجدہ واجب ہوگیا اور اگر محض ہونٹ ہلے آواز پیدا نہ ہوئی تو واجب نہ ہوا۔‘‘(بھارِ شریعت،جلد1،حصہ4،صفحہ 728،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم