مجیب:ابوواصف محمد آصف عطاری
مصدق: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر:Jtl-0081
تاریخ اجراء: 16محرم الحرام1443 ھ/25اگست 2021 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں !صدقہ عمربڑھاتا ہے اوریہ بات حدیث مبارک میں موجودہے،عمرمیں اضافہ کیسے ہوتاہے،اس بارے میں مختلف اقوال ہیں : ایک قول یہ ہے کہ عمرمیں برکت مرادہے ،اس طورپر کہ اللہ پاک صدقہ کرنے والے شخص کوفضولیات سے بچنے اورنیکی وبھلائی کے کاموں، آخرت کے لیے نافع اُمور کی توفیق عنایت فرمائے گااوربعض نے کہاکہ عمر میں برکت سے مراد حقیقتاً عمر میں اضافہ ہے ،یعنی لوح محفوظ میں اس شخص کے بارے یوں لکھاہوتاہے کہ اگروہ صدقہ کرے گا،توا س کی عمر60 سال ہوگی اوراگرنہیں کرے گا،تو40سال۔ایک قول یہ ہے کہ مرنے کے بعداس کاذکرخیرباقی رہے گا،گویاوہ مرا نہیں، بلکہ وہ زندہ ہے کہ اس کے علم یاصدقہ جاریہ یانیک اولاد کے ذریعے لوگ نفع حاصل کرتے رہیں گے۔
المعجم الکبیر میں حدیث مبارک ہےکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”إن صدقة المسلم تزيد في العمر، وتمنع ميتة السوء“یعنی : بے شک مسلمان کا صدقہ عمر کو بڑھاتا ہے اور بُری موت کو روکتاہے۔ (المعجم الكبير للطبراني ،جلد17،صفحہ 22، مطبوعہ قاهرہ)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:’’ولا يزيد في العمر إلا البر هو الإحسان والطاعة. قيل: يزاد حقيقة. قال تعالى:﴿وَمَا یُعَمَّرُ مِنۡ مُّعَمَّرٍ وَّلَا یُنۡقَصُ مِنْ عُمُرِہٖۤ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ﴾ (فاطر: 11)وقال:﴿یَمْحُوا اللہُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ ۖ وَعِنۡدَہٗۤ اُمُّ الْکِتٰبِ ﴾ (الرعد: 39)۔وذكر في الكشاف أنه لا يطول عمر إنسان ولا يقصر إلا في كتاب۔ وصورته: أن يكتب في اللوح إن لم يحج فلان أو يغز فعمره أربعون سنة، وإن حج وغزا فعمره ستون سنة، فإذا جمع بينهما فبلغ الستين فقد عمر، وإذا أفرد أحدهما فلم يتجاوز به الأربعين فقد نقص من عمره الذي هو الغاية وهو الستون، وذكر نحوه في معالم التنزيل، وقيل: معناه أنه إذا بر لا يضيع عمره فكأنه زاد، وقيل: قدر أعمال البر سببا لطول العمر، كما قدر الدعاء سببا لرد البلاء، فالدعاء للوالدين وبقية الأرحام يزيد في العمر، إما بمعنى أنه يبارك له في عمره فييسر له في الزمن القليل من الأعمال الصالحة ما لا يتيسر لغيره من العمل الكثير، فالزيادة مجازية؛ لأنه يستحيل في الآجال الزيادة الحقيقية.قال الطيبي: اعلم أن اللہ تعالى إذا علم أن زيدا يموت سنة خمسمائة استحال أن يموت قبلها أو بعدها، فاستحال أن تكون الآجال التي عليها علم اللہ تزيد أو تنقص، فتعين تأويل الزيادة أنها بالنسبة إلى ملك الموت أو غيره ممن وكل بقبض الأرواح، وأمره بالقبض بعد آجال محدودة، فإنه تعالى بعد أن يأمره بذلك أو يثبت في اللوح المحفوظ ينقص منه أو يزيد على ما سبق علمه في كل شيء وهو بمعنى قوله تعالى:﴿یَمْحُوا اللہُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ ۖ وَعِنۡدَہٗۤ اُمُّ الْکِتٰبِ ﴾ (الرعد: 39) وعلى ما ذكر يحمل قوله عز وجل:﴿ثُمَّ قَضٰۤی اَجَلًا ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی عِنۡدَہٗ﴾ (الأنعام: 2)فالإشارة بالأجل الأول إلى ما في اللوح المحفوظ، وما عند ملك الموت وأعوانه، وبالأجل الثاني إلى ما في قوله تعالى:﴿ وَعِنۡدَہٗۤ اُمُّ الْکِتٰبِ ﴾ (الرعد: 39)وقوله تعالى:﴿اِذَا جَآءَ اَجَلُہُمْ فَلَا یَسْتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّلَایَسْتَقْدِمُوۡنَ﴾ (يونس: 49)و الحاصل أن القضاء المعلق يتغير، وأما القضاء المبرم فلا يبدل ولا يغير۔ (رواه الترمذي) : وكذا ابن ماجه عن سلمان، وابن حبان، والحاكم وقال: صحيح الإسناد عن ثوبان، وفي روايتيهما:’’ لا يرد القدر إلا الدعاء، ولا يزيد في العمر إلا البر، وإن الرجل ليحرم الرزق بالذنب يذنبه‘‘ ترجمہ : انسان کی عمر نہیں بڑھتی، مگر احسان و اطاعت کی وجہ سے اور ایک قول یہ کہا گیا ہے کہ حقیقتاً عمر میں زیادتی کی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اور جس بڑی عمر والے کو عمر دی جائے یا جس کسی کی عمر کم رکھی جائے یہ سب ایک کتاب میں ہے۔‘‘ اور فرماتا ہے:’’اللہ جو چاہے مٹاتا اور ثابت کرتا ہے اور اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے‘‘ کشاف میں ذکر کیا گیا ہے کہ: انسان کی وہی عمربڑھتی اور کم ہوتی ہے، جو لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ لوح محفوظ میں لکھا ہواہے کہ اگر فلاں بندہ حج یا جہاد نہیں کرے گا ،تو اس کی عمر 40 سال ہوگی اور اگر حج یا جہاد کرے گا، تو اس کی عمر 60 سال ہوگی ،تو جب اس نے ان دونوں ( یعنی حج یا جہاد )کو کیا ،تواس کی عمر 60سال تک پہنچ جائے گی ،تو یہ اس وقت اس کی عمر(60سال)ہوگی ۔جب اس نے ان دونو ں (حج یا جہاد ) میں سے کسی ایک کو کیا ،تو اس کی عمر 40 سال سے تجاوز نہیں کرے گی۔تو اس طرح اس کی جو زیادہ سے زیادہ عمر ( ساٹھ سال )تھی اس کے مقابلے میں یہ عمر کم ہوگئی۔اسی طرح کا کلام ’’معالم التنزیل ‘‘میں موجود ہے ۔اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ : جب انسان نیکی کرتا ہے، تو اس کی عمر ضائع نہیں کی جاتی، تو گویا کہ( اس نیکی کے سبب سے ) اس کی عمر بڑھ جاتی ہے ۔اور ایک قول یہ بھی ہے کہ نیکیوں کی مقدار عمر بڑھنے کا سبب ہے ۔ جیسے دعا بلاؤں کو رد کرنے کا سبب ہے ۔تو والدین اور عزیز و اقارب کے لیے دعا کرنا یہ عمر میں زیادتی کرتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کی عمر میں برکت ڈال دی جاتی ہے،تواس برکت کی وجہ سے اس کے لیے تھوڑے زمانے میں زیادہ نیک اعمال کرنا آسان ہوجاتا ہے ،جو اس کے علاوہ دوسرے شخص کے لیے( تھوڑے وقت میں ) کثیر اعمال کرنا آسان نہیں ہوتا ۔تو یہ زیادتی مجازاً ہے (حقیقتاً نہیں ) کیونکہ حقیقتاً عمر کی مدت میں زیادتی محال ہے ۔
امام طیبی فرماتے ہیں : جان لو کہ جب اللہ عزوجل کے علم میں ہے کہ زید کی عمر پانچ سو سال ہے ، توزید کا اس سے پہلے یا اس کے بعد مرنا محال ہے ،پس وہ مدت جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، اس میں کمی اور زیادتی بھی محال ہے ۔لہٰذا سابقہ کلام سے (عمر میں زیادتی کی )تاویل متعین ہوگئی کہ ( عمر میں جو زیادتی ہوتی ہے ،وہ ) ملک الموت یا ان کے علاوہ ان فرشتوں کی طرف نسبت کرتے ہوئے ہے کہ جن کا کام روح قبض کرنا ہے ۔ تو ان کو حکم دیاگیا ہوتا ہے کہ مخصوص مدت کے بعد ان کی روح قبض کرنی ہے ،تو اللہ تعالیٰ اولاً حکم دینے یا لوح محفوظ میں لکھنے کےبعد اپنے سابقہ علم کے مطابق ہر شے میں کمی و زیادتی فرماتا ہے اور یہی معنی ہے، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا کہ( اللہ تعالیٰ جسے چاہے مٹاتا اور جسے چاہے لکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب ( یعنی اصل لکھا ہوا) ہے ۔اور اسی پر محمول کیا جائے گا اللہ تعالیٰ کےاس فرمان کو :’’ پھر ایک میعاد کا حکم رکھا اور ایک مقرر وعدہ اس کے یہاں ہے‘‘تو(اس آیت میں )پہلی اجل سے اس مدت کی طرف اشارہ ہے، جو لوح محفوظ ،ملک الموت اور ان کے معاونین کے پاس ہے اور دوسری اجل سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہےکہ :’’اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے‘‘اور اس فرمان کی طرف کہ:’’جب ان کا وعدہ آئے گا، تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹیں نہ آگے بڑھیں ‘‘خلاصہ یہ نکلا کہ :قضاء معلق میں تغیر وتبدیلی ہوجاتی ہے ۔اور قضاء مبرم میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔(اس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے ) اسی طرح ابن ماجہ نےسلمان سے ،اور ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔اور کہا ہے کہ یہ حضرت ثوبان سے صحیح الاسناد کے طریق سے مروی ہے ۔اور ان دو روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ :’’ تقدیر کو رد نہیں کرتی مگر دعا ،اور عمر میں زیادتی نہیں کرتی مگر نیکی اور انسان اس گناہ کے سبب جس کا وہ ارتکاب کرتا رزق سے محروم کر دیاجاتا ہے ۔(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ،جلد4،صفحہ1528،دار الفكر، بيروت )
عمدۃ القاری میں ہے:”(أحدهما) أن هذه الزيادة بالبركة في العمر بسبب التوفيق في الطاعات وصيانته عن الضياع وحاصله أنها بحسب الكيف لا الكم (والثاني) أن الزيادة على حقيقتها وذلك بالنسبة إلى علم الملك الموكل بالعمر وإلى ما يظهر له في اللوح المحفوظ بالمحو والإثبات فيه :﴿یَمْحُوا اللہُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ ﴾كما أن عمر فلان ستون سنة إلا أن يصل رحمه فإنه يزاد عليه عشرة وهو سبعون وقد علم اللہ عز وجل بما سيقع له من ذلك فبالنسبة إلى اللہ تعالى لا زيادة ولا نقصان ويقال له القضاء المبرم وإنما يتصور الزيادة بالنسبة إليهم ويسمى مثله بالقضاء المعلق ويقال المراد بقاء ذكره الجميل بعده فكأنه لم يمت وهو إما بالعلم الذي ينتفع به أو الصدقة الجارية أو الخلف الصالح“ترجمہ : پہلا جواب یہ ہے کہ یہ زیادتی اطاعت کی توفیق ملنے کے سبب عمر میں برکت کے ذریعے ہوتی ہے اور اس کا حاصل یہ ہے کہ عمر میں زیادتی کیفیت کے اعتبار سے ہے، نہ کہ مقدار کے اعتبار سے اور دوسرا یہ کہ حقیقتاًعمر میں زیادتی ہوتی ہے ،پس یہ حقیقی زیادتی اس فرشتے کے علم کے اعتبار سے ہو گی جس کو زندگی کے ساتھ مقرر کر دیا گیا ہے ،نیزلوح محفوظ میں جو ظاہر ہے، اس میں محو و اثبات کے حوالے سے ہو گی:’’ کہ اللہ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور ثابت فرماتا ہے‘‘ جیسا کہ فلاں شخص کی عمر ساٹھ سال ہے، مگر اس نے صلہ رحمی کی تو اس پر دس سال زیادہ کر دیے جائیں گے اور وہ ستر سال زندہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وہ صلہ رحمی کرے گا اور اس کی عمر ستر سال ہو گی ،تو اللہ تعالیٰ کے علم کے اعتبار سے اس میں زیادتی اور کمی نہیں ہو گی اور اسے قضاء مبرم کہا جا تا ہے اوریہ زیادتی اس فرشتہ کے اعتبار سے ہے اوراسی کی مثل کو قضاء معلق کہا جاتا ہے اور ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ زیادتی سےمراد یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس کا ذکر جمیل باقی رہے گا ،گویا کہ وہ مرا ہی نہیں اور یہ ذکر جمیل اس علم کی وجہ سے جس سے لوگوں نے نفع حاصل کیا یا صدقہ جاریہ کی وجہ سےیا نیک اولاد چھوڑنے کی وجہ سے ۔ (عمدة القاري شرح صحيح البخاري ،جلد22،صفحہ91،مطبوعہ بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟