Quran o Hadees Se Taqlid Aur Qiyas Ka Suboot

قرآن و حدیث سے تقلید اورقیاس کا ثبوت

مجیب: ابو احمد محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1636

تاریخ اجراء: 22شوال المکرم1444 ھ/13مئی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   تقلید اور قیاس   کیا ہے ؟ اس کا ثبوت قرآن و  حدیث سے ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تقلیداورقیاس کے ثبوت کے متعلق تفصیل درج ذیل ہے:

   (الف)تقلیدکے متعلق تفصیل:

   تقلیدکی تعریف:

   مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ الرحمۃ جاء الحق میں فرماتے ہیں :"تقلیدکے شرعی معنی یہ ہیں کہ:" کسی کے قول وفعل کواپنےپرلازم شرعی جاننا،یہ سمجھ کرکہ اس کاکلام اوراس کاکام ہمارے لیے حجت ہے،کیونکہ یہ شرعی محقق ہے ۔"(جاء الحق،حصہ اول،ص20،قادری پبلشرز،لاہور)

   تقلیدکاثبوت:

   تقلید کا ثبوت قرآن وحدیث  میں موجود ہے چنانچہ اللہ تبارک وتعالی قرآن مجیدفرقان حمید میں ارشادفرماتاہے: ’’ {فاسئلوااھل الذکر ان کنتم لاتعلمون}ترجمہ کنزا لایمان: تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔(سورۃ النحل، سورت 16،آیت 43)

               اس آیت مبارک کی تفسیر میں روح المعانی میں ہے ’’واستدل بہا أیضاً علی وجوب المراجعۃ للعلماء فیما لا یعلم وفی الإکلیل للجلال السیوطی أنہ استدل بہا علی جواز تقلید العامی فی الفروع‘‘ترجمہ: آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیاہے کہ جس چیز کا علم  نہ ہو، اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے اور علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اکلیل میں لکھتے ہیں کہ اس آیت سے عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں  تقلید کے جوازپر استدلال کیا گیا ہے۔(روح المعانی ، سورۃ النخل، سورت 16،آیت 43)

    (ب)قیاس کے متعلق تفصیل:

              قیاس کے بارےمیں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتےہیں :’’قیاس کے معنی لغت میں اندازہ لگانا ،اور شریعت میں کسی فرعی مسئلہ کو اصل مسئلہ سے علت اور حکم میں ملادینایعنی ایک مسئلہ ایسا  درپیش آگیا ،جس کا ثبوت قرآن وحدیث میں نہیں ملتا، تو اسکی مثل کوئی وہ مسئلہ لیا ،جو قرآن وحدیث میں ہے ،اسکے حکم کی علت معلوم کرکے کہا:" چونکہ وہ علت یہاں بھی ہے لہذا اسکا یہ حکم ہے ۔"جیسے کسی نے پوچھا کہ عورت کے ساتھ اغلام کرنا کیسا ہے؟ہم نے جواب دیا کہ:" حالت حیض میں عورت سے جماع حرام ہے۔ کیوں ؟پلیدی کی وجہ سے۔اور اس میں بھی پلیدی ہے لہذا یہ بھی حرام ہے ۔"

   کسی نے پوچھا :"جس عورت سے کسی کے باپ نے زنا کیا، وہ اسکے لئے حلال ہے یا نہیں؟"ہم نے کہا :"جس عورت سے کسی کا باپ نکاح کرے، وہ بیٹے کو حرام ہے ،وطی یا جزئیت کی وجہ سے ،لہذا یہ عورت بھی حرام ہے ۔"اس کو قیاس کہتے ہیں ۔مگر شرط یہ ہے کہ قیاس کرنے والا مجتہد ہو، ہرکس وناکس کا قیاس معتبر نہیں ۔قیاس اصل میں حکم شریعت کو ظاہر کرنے والا ہے، خود مستقل حکم نہیں یعنی قرآن وحدیث کا حکم ہوتا ہے مگر قیاس اسے یہاں ظاہر کرتا ہے۔

   قیاس کا ثبوت قرآن وحدیث وافعال صحابہ سے ہے ۔

         قرآن فرماتا ہے:{فاعتبروا یا اولی الابصار}ترجمہ:تو عبرت لو اے نگاہ والو۔(سورہ ہود،آیۃ:2)

                یعنی کفار کے حال پر اپنے کو قیاس کرو کہ اگر تم نے ایسی حرکات کیں تو تمھارا بھی یہی حال ہوگا ۔

   نیز قرآن نے قیامت کے ہونے کو نیند پر، اسی طرح کھیتی کے خشک ہوکر سرسبز ہونے پر قیاس فرماکر بتایا ہے۔اول سے آخر تک کفار کی مثالیں بیان فرمائی ہیں، یہ بھی قیاس ہے ۔

                بخاری کتاب الاعتصام میں ایک باب باندھا :باب من شبہ اصلا معلوما باصل مبین قد بین اللہ حکمہا لیفھم بہ السائل "یعنی جو کسی قاعدہ معلومہ کو ایسے قاعدہ سے تشبیہ دے جس کا حکم خدانے بیان فرمادیا ہے تاکہ سائل اس سے سمجھ لے۔

           اس میں ایک حدیث نقل کی ،جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو قیاس سے حکم فرمایا۔"ان امراۃ جاء ت الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقالت ان امی نذرت ان تحجو  افاحج عنہا ؟قال نعم حجی عنہا ارئیت لو کان علی امک دین اکنت تقضینہ  قالت نعم قال اقضوا الذی لہ فان اللہ احق بالقضاء" یعنی ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میری والدہ نے حج کی نذر مانی تھی کیا میں اسکی طرف سے حج کروں ؟فرمایا:ہاں کرو۔اگر تمھاری ماں پر قرض ہوتا توتم اس کو ادا کرتیں ؟عرض کیا ہاں ۔فرمایا وہ بھی قرض ہے ادا کرو جو اللہ کا ہے کیونکہ اللہ ادائے قرض کا زیادہ مستحق ہے۔

             مشکوۃ،کتاب الامارۃ، باب ما علی الولادۃ اور ترمذی جلد اول شروع ابواب الاحکام اور دارمی میں ہے کہ :جب حضرت معاذ ابن جبل کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا حاکم بناکر بھیجا تو پوچھا کس چیز سے فیصلہ کرو گے ؟عرض کیا: کتاب اللہ سے ۔فرمایا: اگر اس میں نہ ہو تو؟ عرض کیا کہ: اسکے رسول کی سنت سے۔ فرمایا :اگر اس میں بھی نہ پاؤ تو ؟عرض کیا کہ:" اجتھد برائی ولا آلو قال فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صدرہ وقال الحمد للہ الذی وفق رسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما یرضی بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ " ترجمہ:اپنی رائے سے اجتھاد کروں گا ،راوی نے فرمایا:کہ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ اس خدا کا شکر ہے جس نے رسول اللہ کے قاصدکو اسکی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔

                  اس سے قیاس کا پرزور ثبوت ہوا۔چونکہ حضور علیہ السلام کی ظاہری حیات میں اجماع نہیں ہوسکتا ، اس لئے اجماع کا ذکر حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے نہ کیا ۔اسی طرح صحابہ کرام نے بہت سے احکام اپنے قیاس سے دئیے،حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو قیاس فرماکر مہر مثل دلوایا ،جو بغیر مہر نکاح میں آئی اور شوہر مرگیا ۔(دیکھو نسائی جلددوم ص88)"(جاء الحق، حصہ اول، صفحہ 36-37،قادری پبلشرز ،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم