Quran Mein Mashriq aur Maghrib Ke Liye Mukhtalif Seeghay Kiyon Bole Gaye?

قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟

مجیب:مولانا عرفان صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: Lar:6418

تاریخ اجراء:02جمادی الثانی 1438ھ/02مارچ 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ قرآن پاک میں ایک آیت ہے (رب المشرق والمغرب)اورایک آیت ہے(رب المشرقین ورب المغربین)اورایک آیت ہے (برب المشارق والمغارب)یہ تین آیات میں مشرق ومغرب کے لیے مختلف صیغے،واحد،تثنیہ اورجمع کے کیوں استعمال کیے گئے ہیں ،اس کے متعلق رہنمائی فرمادیں۔

سائل :اشتیاق عطاری(مغلپورہ،لاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جہاں مشرق ومغرب واحدکاصیغہ ہے وہاں اس سے جہت مشرق اورجہت مغرب مرادہے۔ اورجہاں دومشرق اوردومغرب کاذکرہے وہاں دوموسموں گرمیوں اورسردیوں کے دو مشرق ومغرب مراد ہیں۔

    اورجہاں مشرق ومغرب کوجمع کے صیغوں کے ساتھ ذکرکیاہے اس سے یاتوسورج کے ہرروزکے طلوع وغروب کے مقامات مرادہیں کیونکہ سورج ایک سال میں ہرروزایک نئے مقام سے طلوع ہوتاہے اورنئے مقام پرغروب ہوتاہے تویوں سال میں سورج کے طلوع وغروب کے 365مقامات ہیں،یااس سے سورج چانداورہرہرستارے کے طلوع وغروب کے مقامات مرادہیں ۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم