قرآ ن
خوانی کے بعد |
مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:har:4960 |
تاریخ اجراء:12صفرالمظفر1440ھ/22اکتوبر2018ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان
شرع متین اس مسئلہ کے بیان میں کہ قرآن خوانی کے بعد
|
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
قرآن خوانی کے بعد جو (1)پہلی صورت یہ ہے کہ اگر قرآن پڑھنے والوں اور صاحبِ خانہ کے درمیان قرآن خوانی کے عوض کچھ لینا ،دینا طے ہوا ہے یا زبانی طور پر تو کچھ طے نہیں ہوا ، لیکن قرآن خوانی کے عوض کچھ لینا دینا عام طور پر رائج ہے ، جس کی وجہ سے قرآن پڑھنے والے جانتے ہیں کہ اس کے عوض کچھ نہ کچھ ملے گا اور بلوانے والے بھی جانتے ہیں کہ انہیں تلاوتِ قرآن کے عوض کچھ نہ کچھ دینا ہوگا ، تو یہ دونوں صورتیں حرام و گناہ ہیں کہ یہ تلاوتِ قرآن پر اجارہ کرنا ہے ، جبکہ قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت پر اجارہ اور اس کی اجرت لینا دینا بھی ناجائز ہے۔ (2)دوسری صورت
یہ ہے کہ نہ زبانی اجرت کی بات ہوئی، نہ ہی اس
دی جانے والی چیز کا اجرت ہونا دلالۃ ً متعین ہے۔
جیسا کہ عام طور پر ہمارے ہاں میلاد شریف،گیارہویں
شریف اوردیگر بزرگان دین کے ایصال ثواب یا گھر
میں خیر وبرکت کے لیے قرآن خوانی کروائی
جاتی ہےاور اس کے بعد تلاوتِ قرآن پر اجارہ سے متعلق علامہ محقق ابن عابدین الشامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”نصوص المذھب من متون و شروح و فتاوی متفقۃ علی بطلان الاستئجار علی الطاعات ومنھا التلاوۃ کماسمعت الا مااستثناہ المتاخرون للضرورۃ کالتعلیم و الاذان و الامامۃ ولایصح الحاق التلاوۃ المجردۃ بالتعلیم لعدم الضرورۃ اذ لاضرورۃ داعیۃ الی الاستئجار علیھا بخلاف التعلیم لمافی الزیلعی وکثیر من الکتب لو لم یفتح لھم باب التعلیم بالاجر لذھب القرآن فافتوا بجوازہ ورأوہ حسنا۔اھ ولاشک ان المنع من الاستئجار علی التلاوۃ لاھداء ثوابھا الی المستاجر لیس فیہ ذھاب القرآن فلایصح قیاسھا علی التعلیم“نصوصِ مذہب یعنی متون،شروح اورفتاویٰ اس بات پر متفق ہیں کہ عبادات کہ جن میں تلاوتِ قرآن بھی شامل ہے جیسا کہ آپ سن چکے ، ان پر اجارہ باطل ہے ، سوائے ان صورتوں کے کہ جن کا متاخرین نے ضرورت کی بنا پر استثناء فرمایا ہے ۔ جیسا کہ تعلیم ،اذان اور امامت اور ضرورت متحقق نہ ہونے کی وجہ سے محض تلاوتِ قرآن کو تعلیمِ قرآن کے ساتھ ملحق کرنا درست نہیں ہے ، کیونکہ کوئی ایسی ضرورت کہ جو تلاوتِ قرآن پر اجارہ کی طرف داعی ہو ، موجود نہیں ، برخلاف تعلیمِ قرآن کے ، کیونکہ زیلعی اور کثیر کتب میں مذکور ہے کہ اگر اجرت کے ساتھ تعلیمِ قرآن کا دروازہ نہ کھولا جائے ، توقرآن پاک ضائع ہوجائے گا ، تو اس پر فقہاء نے جواز کا فتوی دیا اور اسے پسند فرمایا۔اھ اور شک نہیں کہ مستاجر کو ثواب ہدیہ کرنے کے لیے تلاوتِ قرآن پر اجارہ سے منع کردیا جائے ، تو اس میں ضیاعِ قرآن کا خطرہ نہیں ہے ، لہٰذا اسے تعلیم پر قیاس کرنا درست نہیں۔(العقود الدریہ ،جلد 2،صفحہ218،219،مطبوعہ کراچی ) سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :”اصل یہ ہے کہ طاعت و عبادات پر اجرت لینا دینا (سوائے تعلیمِ قرآن عظیم وعلومِ دین و اذان و امامت وغیرہا معدودے چند اشیاء کہ جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بناچاری و مجبوری بنظر حال زمانہ جائز رکھا )مطلقاً حرام ہے اور تلاوتِ قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب ۔۔۔ ضرور منجملہ عبادات و طاعت ہیں ، تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام و محذور اور اجارہ جس طرح صریح عقد زبان سے ہوتا ہے،عرفاً شرط معروف ومعہود سے بھی ہوجاتا ہے ۔ مثلاً پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا ، مگر جانتے ہیں کہ دینا ہوگا ،وہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ملے گا،انہوں نے اس طور پر پڑھا، انہوں نے اس نیت سے پڑھوایا، اجارہ ہوگیا اور اب دو وجہ سے حرام ہوا: ایک تو طاعت پر اجارہ یہ خود حرام ،دوسرے اجرت اگر عرفاً معین نہیں ، تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد ، یہ دوسرا حرام ۔ ای ان الاجارۃ باطلۃ و علی فرض الانعقاد فاسدۃ فللتحریم وجھان متعاقبان وذلک لما نصوا قاطبۃ ان المعھود عرفاً کالمشروط لفظاً۔(یعنی حقیقت میں تو یہ اجارہ باطل ہے ، لیکن اگر منعقد فرض کرلیا جائے ، تو فاسد ہے ، تو یکے بعد دیگرے اس کے حرام ہونے کی دو وجہیں ہیں اور یہ اس لیے کہ تمام فقہاء کی نص ہے کہ عرف میں مشہور و مسلم لفظوں میں مشروط کی طرح ہے ۔مترجم )پس اگر قرار داد کچھ نہ ہو ،نہ وہاں لین دین معہود ہوتا ہو ، تو بعد کو بطور صلہ و حسن سلوک کچھ دے دینا جائز بلکہ حسن ہوتا ،مگر جبکہ اس طریقہ کا وہاں عام رواج ہے،تو صورت ثانیہ میں داخل ہوکر حرام محض ہے ۔(ملخصاً۔ فتاوی رضویہ ، جلد 19،صفحہ486،487،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور ) تلاوت قرآن پر صراحۃً ،دلالۃً کسی طرح سے اجارہ نہ ہو ،محض صدقہ و صلہ کے طور پر کچھ لیا ،دیا جائے ، تویہ جائز ہے۔چنانچہ فتاوی اجملیہ میں ہے :”تلاوتِ قرآن کریم پر اجرت لینا اور دینا بالکل ناجائز ہے ۔ اسی طرح جس مقام کے عرف میں اس پر لیا دیا جاتا ہے ، تو حسبِ دستور تلاوت پر لینا اور دینا بھی ناجائز ہے، ہاں جہاں نہ ایسا عرف و رواج ہو ،نہ دینے والا اور نہ لینے والا بہ نیتِ اجرت لیتے ،دیتے ہوں ، تو وہاں صدقہ و صلہ ہے ،اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ۔ “(فتاوی اجملیہ ،جلد 2، صفحہ 620،مطبوعہ شبیر برادرز،لاھور ) |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟
تلاوت کے دوران نبی پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام کا اسمِ گرامی آجائے ، تو کیا درودِ پاک پڑھنا ضروری ہے ؟