Qabristan Mein Quran Majeed Ki Tilawat Karne Ka Hukum

قبرستان میں قرآن مجید  کی تلاوت کرنے کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-7114

تاریخ اجراء:28جمادی الاولیٰ1444ھ/23دسمبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں کہ

   (1)قبرستان میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور اس کا ثواب ایصال کرنے  کا کیا حکم ہے؟

   (2)کیا امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قبرستان میں قرآن کریم پڑھنا مکروہ ہے؟

   (3)نیز ایک حدیث مبارک ہے کہ گھروں میں  سورت بقرہ کی تلاوت کرو اور ، اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔(مفہومِ  حدیث) اس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ گھروں  میں تلاوت نہ کرنے کو قبرستان  کی طرح قرار دیا گیا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ  قبرستان میں تلاوتِ قرآن نہیں کی جاسکتی ۔ اس استدلال کی کیا حقیقت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)قبرستان میں یا کسی قبر کے پاس  بیٹھ کر قرآن کریم پڑھنا اور اس کا ثواب  صاحبِ قبر اور دیگر مرحومین کو ایصال کرنا بلاشبہ جائز ہے   اوراس   کاجواز قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔البتہ اس میں اس بات کی احتیاط  ضروری ہے کہ قبر کے پاس  بیٹھ کر قرآن پڑھنے والا کسی قبر پر پاؤں نہ رکھے، نہ ہی کسی قبر پر بیٹھ کر قرآن پڑھے ۔ تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ مرحومین  کے ایصالِ ثواب کے لیے مسلمان جو بھی نیک عمل کرے، خواہ وہ فرض ہو یا نفل مثلاً:نماز،تلاوت، کلمہ طیبہ،درود شریف،روزہ،حج،زکوٰۃ، صدقہ و خیرات وغیرہ، اس کا ثواب دوسرے فوت شدہ یازندہ مسلمانوں کو ایصال کر سکتا ہے ۔پھر اس میں جگہ کی کوئی تخصیص نہیں ہے، لہٰذا کوئی شخص  قبرستان میں یا کسی قبر کے پاس یا  گھر وغیرہ کسی بھی جگہ  شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے قرآنِ کریم پڑھے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، بلکہ  خاص طور پرقبر کے پاس قرآن کریم پڑھنے کا جواز تو متعدد احادیث طیبہ کی روشنی میں ثابت ہے۔

   مرحومین کی طرف سے صدقہ کرنے اور انہیں اس صدقہ کا اجر ملنے کے متعلق بخاری شریف کی حدیثِ پاک میں ہے:”ان رجلا قال للنبی صلی اللہ علیہ وسلم ان أمی افتلتت نفسھا و أظنھا لو تکلمت تصدقت فھل لھا أجر ان تصدقت عنھا قال نعم“ایک شخص نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کچھ بات کر سکتیں ، تو صدقہ کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں ، تو کیا انہیں اجر ملے گا ؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہاں ملے گا۔(صحیح البخاری،   ج01 ، ص 186، مطبوعہ  کراچی)

   نفل نماز کا ثواب بھی ایصال کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ سنن ابی داؤد میں ہے،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حج کو جانے والوں سے فرمایا:’’من يضمن لی منكم ان يصلی لی فی مسجد العشار ركعتين، او اربعا، ويقول هذه لابی هريرة‘‘تم میں سے کون مجھے اس چیز کی ضمانت دیتا ہےکہ وہ مسجد عشار میں میرے لیے دو یا چار رکعت پڑھ کر اس کا ثواب مجھے بخشے گا ۔(سنن ابی داؤد ،ج02،ص242 ، مطبوعہ لاھور)

   اس حدیثِ پاک کےتحت شیخ  محقق عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:’’اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ مبارک مقامات پر عبادت کرنا ،نماز ادا کرنا زیادہ ثواب کا موجب ہے،اور بدنی عبادات کا ثواب دوسرے کو دینا بھی جائز ،اور اکثر علماء کی یہی رائے ہے،رہا معاملہ عبادات مالیہ کا تو وہاں ثواب کا بخشنا بالاتفاق جائز ہے۔“   (اشعۃ اللمعات (مترجم)،ج06،ص425، فرید بک سٹال ،لاھور)

   اور خاص طور پر قبرکے پاس قرآن کریم پڑھنے کے متعلق بھی  تصریحات موجود ہیں ۔چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:”مر النبی صلی اللہ علیہ و سلم بقبرین فقال : انھما  لیعذبان و مایعذبان فی کبیر اما احدھما فکان  لایستتر من البول و اما الآخر فکان یمشی بالنمیمۃ ثم أخذ جريدة رطبة، فشقها بنصفين، ثم غرز فى كل قبرواحدة، قالوا : يا رسول اللہ ! لم صنعت هذا ؟ فقال لعله أن يخفف عنهما ما لم ييبسا“ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم دو قبروں کے پاس سے گزرے ، تو فرمایا کہ ان دونوں  کو عذاب ہو رہا ہے  اور انہیں کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا،(ان میں سے ) ایک تو پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا  اور دوسرا چغل خوری کرتا تھا ،پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کی ایک تر(تازہ)  ٹہنی لی، اس کے دو ٹکڑے فرمائے، پھر ہر قبر پر ایک کو گاڑ دیا۔ صحابہ کرام  علیہم الرضوان نے عرض کی کہ یا رسول اللہ!(صلی اللہ علیہ و سلم )آپ نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ فرمایا: جب تک یہ دونوں خشک نہ ہوں گی ،  اللہ تعالیٰ ان دونوں کے عذاب میں تخفیف (کمی) کرے گا۔(صحیح البخاری،ج 2،ص95، دار طوق النجاۃ، بیروت)

   امام نووی علیہ الرحمۃ اس حدیث مبارک کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”استحب العلماء قراءة القرآن عند  القبر لهذا الحديث، لأنه إذا كان يرجي التخفيف بتسبيح الجريد فتلاوته اولي“ترجمہ :اس حدیث  مبارک کی وجہ سے علمائے کرام نے قبر کے پاس قرآن کریم کی تلاوت کومستحب قرار دیا ہے ، کیونکہ جب ٹہنی کی تسبیح کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کی امید ہے ،توقرآن کریم کی تلاوت کی وجہ سے بدرجہ اولیٰ  یہ امید ہو سکتی ہے۔(شرح صحیح المسلم للنووی، ج3،ص202، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   حدیث مبارک میں ہے :”من مر بالمقابر فقرا احدی عشرۃ مرۃ قل ھو اللہ احد ثم وھب اجرہ الاموات  اعطی من الاجر بعدد الاموات“ترجمہ:جو قبرستان سے گزرے، گیارہ مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھے ، پھر اس کا  ثواب مُردوں کو ہبہ کرے، تو اسے مُردوں کی تعداد کے برابر اجر دیا جائے گا ۔(کشف الخفاء، ج2،ص282، مکتبۃ القدسی، القاھرہ)

   حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”اقرأوھا علی موتاکم یعنی یٰسٓ ترجمہ:اپنے مُردوں پر سورت  یٰسٓ کی تلاوت کرو۔(مسند احمد، ج33،ص417، رقم الحدیث 20301، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

   محدث کبیر ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارک کی شرح میں فرماتے ہیں : ”ھذا یحتمل ان تکون ھذا القراءۃ عند المیت فی حال حیاتہ و یحتمل ان تکون عند قبرہ“ترجمہ:اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے قریب الموت شخص کے پاس قرآن کریم کی تلاوت مراد ہے اور یہ احتمال (بھی ) ہے کہ قبر کے پاس قراءت کرنا ،مراد ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، ج3،ص1228،دار الفکر، بیروت)

   (2)  امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے اس معاملے میں کراہت کا قول منقول ہے، لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ  کتبِ فقہ میں ایک  مسئلے پر کئی اقوال موجود ہوتے ہیں، لیکن  ان میں سے  وہی قول  اس مذہب یا اس فقہ کا مسئلہ  قرار پاتا ہے کہ جو راجح و مختار ہوتا ہے  اور  قبر کے پاس قرآن کریم پڑھنے کے متعلق بھی مختلف اقوال منقول ہیں،امام محمد رحمۃ اللہ علیہ  اور دیگرائمہ کرام سے  اس بارے میں بلاکراہت جواز کا قول منقول ہے   اور فقہ حنفی کے مسلمہ قواعد کی روشنی میں  یہی قول راجح و مختار ہے   اور پھر امام اعظم  علیہ الرحمۃ کے قول میں کراہت سے مراد کون سی کراہت ہے، اس کی وضاحت بھی کتب میں   موجود نہیں ہے۔ اگر تو کراہتِ تنزیہی مراد ہو، تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمۃ  کے نزدیک  بھی اس کا جواز ہے ، کیونکہ کراہتِ تنزیہی پر ناجائز و گناہ کا حکم نہیں ہوتا  اور اگر اس   سے مراد کراہتِ تحریمی ہو، تو پھر اس کا محمل  یہ ہو گا کہ اگر  قرآن پڑھنے والا کسی قبر  کے اوپربیٹھ کر قرآن پڑھے یا  قبرستان میں بدبو ہو، تو ایسی صورت میں مکروہِ تحریمی و گناہ  کا حکم ہو گا، لہٰذا اگر ایسے کسی ممنوعِ شرعی کا ارتکاب  لازم نہ آئے، تو قبر کے پاس قرآن پڑھنے میں ان کے نزدیک بھی حکمِ جواز ہو گا۔

   محیط برہانی میں ہے :”قراءۃ القرآن فی القبور عند ابی حنیفۃ  رضی اللہ عنہ تکرہ  و عند محمد لا تکرہ  قال صدر الشھید رحمہ اللہ : و مشائخنا اخذوا بقول محمد و حکی عن الشیخ الامام الجلیل ابی بکر محمد بن الفضل البخاری رحمہ اللہ  : ان القراءۃ علی المقابر اذا اخفی و لم یجھر   لا تکرہ و لا باس بہ و انما کرہ قراء ۃ القرآن فی المقبرۃ  جھرا و اما المخافتۃ  فلا باس بہ  و ان ختم  و قیل ان نوی ان یؤنسہ  بصوتہ یقرا“ترجمہ:امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قبرستان میں قرآن پڑھنا مکروہ ہے  اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکروہ نہیں۔ صدر الشہید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ہمارے مشائخ  نے امام محمد علیہ الرحمۃ کے قول کو لیا ہے  اور شیخ امام جلیل ابو بکر محمد بن فضل بخاری رحمہ اللہ   سے حکایت کیا گیا ہے  کہ  قبرستان  میں قراءت کرنا آہستہ آوازسے ہو، اونچی آواز سے نہ ہو، تو مکروہ نہیں  اور اس میں حرج نہیں اور مکروہ محض اس وقت ہو گا کہ جب قبرستان میں  اونچی آواز سے تلاوت کی جائے  ، آہستہ  پڑھنے میں حرج نہیں ، اگرچہ مکمل قرآن کریم پڑھا جائے  اور کہا گیا کہ قرآن کریم پڑھنے کی آوازسے میت کو مانوس کرنے کی نیت ہو، تو قرآن کریم پڑھ سکتا ہے۔(المحیط البرھانی، ج5،ص311،دار الکتب  العلمیہ، بیروت)

   ایک اور مقام پہ فرماتے ہیں :”ان قراء ۃ القرآن فی المقبرۃ  ھل تکرہ ؟ المختار انہ لا تکرہترجمہ:کیا قبرستان میں قراءتِ قرآن  مکروہ ہے؟مختار یہ ہے کہ یہ مکروہ نہیں ہے۔(المحیط البرھانی، ج5،ص400،دار الکتب  العلمیہ، بیروت)

   اس میں یہ احتیاط کی جائے کہ تلاوتِ قرآن کے وقت کسی قبر پر پاؤں نہ رکھے یا کسی قبر  پر نہ بیٹھے ۔چنانچہ البنایہ شرح ہدایہ میں ہے : ”لاباس بقراء  ۃ القرآن  عند  القبور و لکن لا یجلس علی القبر ترجمہ:قبروں کے پاس قرآن کریم پڑھنے میں حرج نہیں ، لیکن وہ قبر پر نہ بیٹھے۔                      (البنایۃ  شرح الھدایہ ،ج3،ص262، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   مجمع الانہر میں امام اعظم علیہ الرحمۃ کے قول کی علت کو یوں بیان فرمایاگیا:”(کرہ الامام القراءۃ عند القبر) لا ن اھل القبر جیفۃ و کذا یکرہ القعود علی القبر لانہ اھانۃ( و جوزھا) ای القراءۃ عند القبرمحمد (و بہ) ای بقول محمد (  اخذ) للفتوی لما فیہ من النفع لورود الآثار بقراءۃ آیۃ الکرسی و سورۃ الاخلاص و الفاتحۃ  وغیر ذلک عند القبور“ترجمہ:امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قبر  کے پاس قراءت کرنا، مکروہ ہے ، اس وجہ سے کہ  صاحبِ قبر  بدبودار ہوتا ہے  اور اسی طرح (قرآن پڑھنے کے لیے)قبر پر بیٹھنا مکروہ ہے، کیونکہ یہ قبر کی اہانت ہے (جو جائز نہیں) اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ  نے  قبر کے پاس قرآن پڑھنے کو جائز قرار دیا  اور امام محمد علیہ الرحمۃ کے قول کو ہی فتوے کے لیے لیا جاتا ہے ، اس وجہ سے کہ اس میں میت کے لیے نفع ہے  کہ قبروں کے پاس آیت الکرسی، سورۃ الاخلاص اورسورۃ الفاتحہ وغیرہ پڑھنے  کے بارے میں آثار و روایات وارد ہیں ۔(مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر،ج2، ص552، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

   اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمۃ  کے نزدیک قبر کے پاس قرآن کریم پڑھنے کی  ممانعت   بعض صورتوں کے ساتھ   مخصوص ہے ، اگر وہ نہیں ہوں گی، تو ان کے نزدیک  بھی ممانعت کا حکم نہیں ہو گا اور اگر بالفرض بہرصورت کراہت کا حکم ہو تب بھی فقہ حنفی کا راجح قول عدمِ کراہت کا ہے۔

   (3) حدیث مبارک میں گھروں میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کرنےکی ترغیب  دی گئی ہے اور یہ  فرمایا گیا   کہ گھروں  کوقبرستان نہ بناؤ ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ قبرستان میں تلاوت  کرنا ہی جائز نہیں، بلکہ   حدیث  مبارک میں محض ایک  تشبیہ دی گئی ہے اور اس   تشبیہ کی تفصیل یہ ہے کہ گھروں میں تلاوتِ قرآن نہ ہو، تو وہ قبروں کی طرح ہیں کہ جس طرح قبر کے اندر مردہ تلاوت نہیں کرتا ، اسی طرح تم اپنے گھروں کو قبر کی طرح تلاوت سے خالی  نہ کرو، بلکہ  گھروں میں  قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو۔

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اقرءوا سورۃ البقرۃ فی بیوتکم  و لا تجعلوھا قبورا“ترجمہ:تم اپنے گھروں میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کرو اور اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔(شعب الایمان، ج4، ص51، مکتبۃ الرشد ، الریاض)

   علامہ مناوی علیہ الرحمۃ اس حدیث مبارک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”(لا تجعلوھا قبورا) ای کالمقابر الخالیۃ عن الذکر و القراءۃترجمہ:تم گھروں کو قبریں نہ بناؤ یعنی قبروں کی طرح نہ بنا لو کہ جو ذکر  و قراءت سے  خالی ہوتی ہیں۔(فیض القدیر، ج2،ص66،المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، مصر)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم