مجیب: ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی
مصدق: مفتی ابو
محمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:2458- Gul
تاریخ اجراء: 17
شعبان المعظم 1443 ھ/ 21مارچ 2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے
بارے میں کہ پانچوں نمازوں میں جو نفل رکعتیں ادا کی
جاتی ہیں ،کیا یہ نفل رکعتیں احادیث سے ثابت
ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جس طرح
فرض اورسنت رکعتیں احادیث سے ثابت ہیں ،اسی طرح نوافل کی
رکعتوں کا ثبوت بھی حدیث سے ملتا ہے۔
ظہر کی دوسنتوں کے بعد دو نوافل کا ثبوت:
ترمذی،سنن
ابی داؤد،سنن نسائی اورسنن ابن ماجہ کی حدیث میں
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے:” واللفظ للترمذی “:سمعت رسول اللہ
صلى اللہ عليه وسلم يقول:من حافظ على أربع ركعات قبل الظهر وأربع بعدها حرمه اللہ
على النار “ ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :جس نے ظہر سے پہلے چاررکعت اورظہر کے
بعد چار رکعت پر مواظبت اختیارکی،اللہ تعالی اس پرآگ کو حرام
فرما دے گا۔(جامع ترمذی، جلد1،صفحہ208،مطبوعہ لاھور)
مرقاۃ
المفاتیح میں اس حدیث پاک کے الفاظ” وأربع بعدها “کے تحت ارشاد فرمایا:” ركعتان منها مؤكدة وركعتان مستحبة، فالأولى بتسليمتين
بخلاف الأولى “ترجمہ: یعنی بعد کی
چاررکعتوں میں دو رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں اور دو رکعتیں
مستحب ہیں۔اولی یہ ہے کہ یہ چار رکعتیں دو
سلاموں کے ساتھ ہوں (یعنی ہردو رکعت پر سلام پھیردیا جائے۔)برخلاف
فرضوں سےپہلی چار رکعتوں کے(کہ وہ چاروں ایک ہی سلام کے ساتھ
ہوں۔) (مرقاۃ المفاتیح،
جلد3،صفحہ223،مطبوعہ کوئٹہ)
مغرب
کی سنتوں کے بعد دو رکعت نماز نفل کا ثبوت:
مغرب کے
فرضوں کے بعد چاررکعت(دو سنت اوردونوافل)پڑھنے کی فضیلت بھی حدیث
میں وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ مصنف عبدالرزاق،مصنف ابن ابی شیبہ اور
عمدۃ القاری میں بھی مصنف ابن ابی شیبہ کے
حوالے سے ذکرفرمایا: ”واللفظ لمصنف عبدالرزاق: عن ابن عمر، لا أعلمه الا رفعه قال:من ركع بعد المغرب
أربع ركعات كان كالمعقب غزوة بعد غزوة“
ترجمہ:حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مرفوعا روایت
ہے،فرماتے ہیں:جس نے مغرب کے بعد چاررکعتیں ادا کیں ،وہ ایسے
ہے جیسے ایک غزوے کے بعد دوسرے
غزوے میں شرکت کرنے والا۔(مصنف عبدالرزاق جلد3،صفحہ 45،مطبوعہ بیروت)
اسی
طرح مشکوۃ المصابیح میں ہے:” وعن مكحول يبلغ به أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: من صلى بعد المغرب
قبل أن يتكلم ركعتين وفی رواية أربع ركعات رفعت صلاته فی عليين۔
مرسلا “ ترجمہ: حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ
عنہ اپنی اس حدیث کو مرسلا روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مغرب کے بعد کلام کرنے سے
پہلے دو رکعت ادا کیں،اور ایک روایت میں چاررکعت کا بھی
ذکر ہے،تو اس کی نماز علیین کے درجے تک بلند ہوتی ہے۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح،
جلد3،صفحہ232،مطبوعہ کوئٹہ)
مرقاۃ
المفاتیح میں اس حدیث کے تحت فرمایا:” (مرسلا) ، أی: يبلغ به حال كون الحديث مرسلا ، لأن
مكحولا تابعی، قال ابن حجر: والارسال هنا لا يضر، لأن المرسل كالضعيف الذی
لم يشتد ضعفه يعمل بهما فی الفضائل۔ اهـ۔ وهذا فی مذهبه،
والا فالمرسل حجة عند الجمهور“ یعنی
حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو بطور ارسال
روایت کرتے ہیں،کیونکہ حضرت مکحول تابعی ہیں۔علامہ
ابن حجررحمہ اللہ نے فرمایا: اس حدیث کا مرسل ہونا کوئی نقصان
نہیں دے گا ،کیونکہ مرسل حدیث اس ضعیف حدیث کی
طرح ہوتی ہے جس کا ضعف ،شدت کا نہ ہو،فضائل کے باب میں ان دونوں احادیث پرعمل کیا
جاتا ہے۔اھ۔ یہ موقف علامہ ابن حجررحمہ اللہ کا ذاتی موقف
ہے، ورنہ جمہور کے نزدیک مرسل حدیث بھی دلیل بن سکتی
ہے۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ
المصابیح، جلد3،صفحہ233،مطبوعہ کوئٹہ)
عشاء
کی دوسنتوں کے
بعد کے دونوافل کا ثبوت:
سنن ابی
داؤد میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت
ہے:” ما صلى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم العشاء
قط فدخل علی الا صلى أربع ركعات أو ست ركعات“ ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی عشاء
کی نماز پڑھ کرتشریف لاتے ،تو چار یا چھ رکعت ادا فرماتے۔ (سنن ابی داؤد، جلد1،صفحہ193،مطبوعہ لاھور)
مرقاۃ
المفاتیح میں اسی حدیث کے تحت فرمایا:” (الا صلى أربع ركعات) أی: ركعتان مؤكدة بتسليمة
وركعتان مستحبة“ یعنی یہ جوفرمایا گیا
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے بعد چاررکعتیں
ادا فرماتے تھے ،ان میں دو رکعتیں مؤکدہ ہیں ایک سلام کے
ساتھ،اور دو رکعتیں نفل ہیں۔(مرقاۃ المفاتیح جلد3،صفحہ227،مطبوعہ کوئٹہ)
وترکے
بعد کے دو نوافل کا ثبوت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم وترکے بعد دورکعت نفل ادا فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ ترمذی شریف
میں ہے:” عن أم سلمة أن النبی صلى اللہ عليه وسلم
كان يصلی بعد الوتر ركعتين“
ترجمہ:ام المؤمنین سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم وترپڑھنے کے بعد دو رکعت نمازادا
فرماتے تھے۔(ترمذی شریف، جلد1،صفحہ218،مطبوعہ
لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟