Nabi Pak Par Sab Se Pehli Wahi Konsi Nazil Hui ?

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلی وحی کون سی  نازل ہوئی؟

مجیب: مفتی ابو  محمدعلی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: 2377-Gul

تاریخ اجراء: 12 جمادی الاولیٰ1443  ھ/17 دسمبر 2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی کے متعلق دریافت کرنا ہے کہ وہ کون سی آیات پر مشتمل تھی ؟کیونکہ  بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلم سے اس طرح کی کوئی حدیث پاک منقول نہیں  ہے، جس میں  بیان کیا گیا ہو کہ پہلی وحی کن آیات پر مشتمل تھی۔اس لیے ہماری شرعی طور پر رہنمائی کی جائے کہ ان لوگوں کی بات درست ہے یا نہیں؟ اگر درست نہ ہو، تو جس حدیث مبارک میں پہلی وحی کی آیات کریمہ کا بیان ہو، وہ بھی بتا دی جائے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ان لوگوں کی یہ بات بالکل درست نہیں ہے کہ احادیث مبارکہ  کی کتابوں میں پہلی وحی کی آیات کے متعلق کوئی حدیث پاک موجود نہیں۔ مفسرین کرام  اور محدثین کرام نےاس بات کو بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی میں سورہ علق کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں۔ جو یہ ہیں:﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ   ۚ(۱)خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ   ۚ(۲)اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ   ۙ(۳) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ    ۙ(۴)عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ    (۵)﴾ترجمہ کنزالایمان:’’پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم۔ جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔“(پارہ 30، سورۃ العلق، آیت1تا5)

   بخاری شریف میں کئی مقامات پر پہلی وحی کا تذکرہ موجود ہے۔ چنانچہ پہلی وحی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے بخاری شریف کے شروع میں ایک حدیث پاک ہے،جس میں بیان کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے: ”عن عائشۃ ام المومنین انھا قالت:۔۔۔ کان یخلوبغار حراءفیتحنث فیہ وھو التعبد ۔۔۔وھو فی غار حراءفجاءہ الملک فقال اِقْرَاْ قال ما انا بقارئ قال: فاخذنی فغطنی حتی بلغ منی الجھد ثم ارسلنی فقال اِقْرَاْ قلت ما انا بقارئ فاخذنی فغطنی الثانیۃ حتی بلغ منی الجھد ثم ارسلنی فقال ” اِقْرَاْ فقلت ما انا بقارئ فاخذ نی فغطنی الثالثۃ ثم ارسلنی فقال﴿ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ    ۚ(۱)خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ     ۚ(۲)اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ     ۙ(۳) ﴾ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  غار حرا میں خلوت اختیار کرکے عبادت کرتے تھے۔ ایک دن آپ غار میں تھے کہ فرشتہ آیا اور کہا :پڑھیے ، آپ نے فرمایا :میں نہیں پڑھتا۔ رسول اللہ فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اپنی طاقت کے مطابق دبایا۔ پھر مجھے چھوڑ کر کہا پڑھیے۔ میں نے کہا میں نہیں پڑھتا۔ پھرمجھے دوسری مرتبہ پکڑ کر پوری قوت سے دبایا اور پھر چھوڑکر کہا پڑھیے ، میں نے کہا میں پڑھنے والا نہیں۔پھرمجھے تیسری مرتبہ پکڑ کر پوری قوت سے دبایا اور کہا پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم۔(الصحیح للبخاری، جلد 1، صفحہ7، حدیث3، مصر)

   بخاری شریف میں ایک اور مقام پر یہی حدیث پاک بیان کی گئی ہے، جس میں  سورہ علق کی پانچ آیات کا تذکرہ ملتا ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے: ” فقال﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ  ۚ(۱)خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۚ(۲) اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ(۳) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ(۴) “الایات الی قولہ” عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ (الصحیح للبخاری، جلد 6، صفحہ173، حدیث4953، مصر)

   عمدۃ القاری میں ہے: ”قال السخاوی: ذھبت عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا و الاکثرون الی ان اول ما نزل:﴿ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَالی قولہ ﴿ مَا لَمْ یَعْلَمْ﴾“ یعنی امام سخاوی فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ اور اکثر علماء کا موقف یہ ہے کہ سب سے پہلے ﴿ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾سے لے کر ﴿ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ﴾ تک آیات نازل ہوئیں۔(عمدۃ القاری، جلد1، صفحہ62، بیروت)

   سورہ علق کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کثیر مفسرین کرام نے بالکل واضح الفاظ میں اس بات کو بیان کیا ہے کہ سب سے پہلے سورہ علق کی آیات کریمہ نازل ہوئیں۔ جیسا کہ ان آیات کریمہ کے تحت تفسیر بغوی میں  ہے: ”اکثر المفسرین علی ان ھذا اول سورۃ نزلت من القران۔۔۔الخ“یعنی اکثر مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ  قرآن کریم میں سب سے پہلے یہی آیات نازل ہوئیں۔(اس کے بعدا مام بغوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بخاری شریف والی حدیث تفصیل سے  ذکر کی۔ مترجم)(تفسیر بغوی، جلد 5، صفحہ 279، بیروت)

   ان آیات کریمہ کے تحت تفسیر ابی السعود میں ہے:”اول ما  نزل علیہ  علیہ الصلاۃ والسلام کما ینطق بہ حدیث الزھری المشھور“ یعنی سب سے پہلے( سورہ اقرا کی) یہی  آیات کریمہ نازل ہوئیں، جیساکہ امام زہری کی مشہور حدیث بتاتی ہے۔(ارشاد العقل السلیم، جلد9، صفحہ177، بیروت)

   بیان کی گئی آیت کریمہ، اس کی تفسیر، حدیث پاک اور اس کی شرح سے واضح ہوگیا کہ پہلی وحی  میں جو آیات کریمہ نازل ہوئی تھیں، ان کا ذکر حدیث پاک میں بالتفصیل موجود ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تفصیل بیان نہیں فرمائی، البتہ اس پر ایک سوال قائم ہوتا ہے  کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تو اس وقت پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی جس وقت پہلی وحی کا نزول ہوا، تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا اس کو بیان کرنا کیسے درست ہے؟ شارحین حدیث نے اس سوال کا جواب بہت پہلے دے دیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے اگرچہ یہ واقعہ خود نہیں دیکھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے یا کسی اور صحابی سے سن کر بیان فرمایا ہے اور دونوں صورتوں میں اس حدیث کی صحت پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا ، کیونکہ اگر کوئی صحابی،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے خود حدیث پاک نہ سنے،بلکہ  کسی دوسرے صحابی سے سن کر حدیث بیان کرے، لیکن اس صحابی کا ذکر نہ کرے، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے خود  حدیث  سنی ہو،تب بھی وہ حدیث پاک بالاتفاق قبول کی جاتی ہے۔

   عمدۃ القاری میں ہے: ”ھذا الحدیث من مراسیل الصحابۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھم فان عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا لم تدرک ھذہ القضیۃ فتکون سمعتھا من النبی او من الصحابی۔۔۔وقال الطیبی: الظاھر انھا سمعت من النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم لقولھا: ” قال فاخذنی فغطنی““ یعنی یہ حدیث پاک صحابہ کرام علیہم الرضوان کی مرسل احادیث میں سے ہے، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے یہ واقعہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، بلکہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے یا کسی اور صحابی سے سنا ہوگا۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ زیادہ ظاہر یہ ہے کہ یہ واقعہ خود نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہو گا۔ اس کی دلیل حضرت عائشہ کا یہ قول ہے”انہوں نے کہا کہ مجھے فرشتے نے پکڑ کر پوری قوت سے دبایا۔‘‘(عمدۃ القاری، جلد1، صفحہ47،بیروت)

   صدر المدرسین علامہ غلام جیلانی میرٹھی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بشیر القاری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں: ”ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا بروقت اس واقعہ کے خدمت نبوی میں حاضر نہ تھیں۔ لہذا کسی صحابی سے سن کر بیان فرما رہی ہیں، جن کا نام ذکر نہیں فرمایا، تو  حدیث مرسل ہے اور اگر خود محبوب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر ناقل ہیں، تو حدیث مسند ہے اور یہی احتمال ظاہر ہے ،کیونکہ ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا  کایہ واقعہ بیان کرتے ہوئے یہ فرمانا:”قال فاخذنی فغطنی“بظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خود محبوب  دو جہان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے یہ واقعہ آپ سے بالمشافہ بیان فرمایا۔“(بشیر القاری، صفحہ91، کراچی)

   صحابہ کی حدیث مرسل کا حکم بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”ھو مقبول بلا خلاف“ یعنی صحابہ کی حدیث مرسل بغیر اختلاف کے  مقبول ہے۔(شرح شرح نخبۃ الفکر، صفحہ588، بیروت)

   اسی طرح فتاوی رضویہ میں صحابہ کرام کی حدیث مرسل کے متعلق ہے: ”مراسیل الصحابۃ مقبولۃ بالاجماع“ یعنی صحابہ کرام کی مراسیل بالاجماع مقبول ہیں۔(فتاوی رضویہ، جلد29، صفحہ721، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم