مجیب: مفتی
محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: SAR-7813
تاریخ اجراء: 28 رمضان المبارک 1443 ھ / 30 اپریل 2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ
شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ
کیا یہ حدیثِ پا
ک ہے کہ
" مسلمان کے جھوٹے میں شفا ہے " اسی طرح کیا یہ
بھی حدیثِ پاک ہے کہ " جو مسلمان بھائی کا جھوٹا پیئے
گا اس کے ستر درجے بڑھا دئیے جائیں گے " ، براہِ مہر بانی
رہنمائی فرمادیجیے ۔سائل : اسماعیل سہروردی ( فیصل آباد )
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
مسلمان
کا جھوٹا پینے کے حوالے سے چند طرح کی روایات معروف ہیں :
(1) مسلما ن کے جھوٹے میں شفا ہے ۔
(2) مسلمان کا جھوٹا
پینا عاجزی کی علامت ہے اور
اس میں اجر ہے ۔
(3) مسلمان کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو پینے میں
شفا ہے ۔
پہلی قسم کی روایات:
اس قسم میں دو طرح کے الفاظ موجود ہیں :
1: سؤر المؤمن
شفاء یعنی مسلمان کے جھوٹے میں شفا ہے ۔
2 : ریق
المؤمن شفاء یعنی مسلمان کے لعاب میں شفا ہے ۔
احادیث کی تحقیق :
ان دونوں روایتوں کے متعلق
محدثینِ کرام رحمھم
اللہ السلام لکھتے ہیں کہ مذکورہ الفاظ کے ساتھ کوئی مرفوع حدیث نبی
پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ثابت نہیں ، لہٰذا مذکورہ الفاظ کی نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف نسبت کرنا دُرست
نہیں ہے ، البتہ معنٰی اور مفہوم کے لحاظ سے یہ
روایات صحیح ہیں کہ ان کے مفہوم پر دیگر چند روایات
شاہد ہیں ۔
محدثینِ کرام علیہم
الرضوان کے اقوال :
علامہ سخاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ”المقاصد الحسنۃ“میں لکھتے ہیں :
”حديث: ريق المؤمن شفاء، معناه صحيح، ففي الصحيحين
أنه صلى اللہ عليه وسلم كان إذا اشتكى الانسان الشيء، أو كانت به قرحة أو جرح قال
بأصبعه يعني سبابته الأرض ثم رفعها وقال: بسم اللہ تربة أرضنا، بريقة بعضنا، أي
ببصاق بني آدم، يشفي سقيمنا بإذن ربنا، إلى غير ذلك مما يقرب منه، وأما ما على
الألسنة من أن: سؤر المؤمن شفاء، ففي "الأفراد " للدارقطني من حديث نوح
ابن ابي مريم عن ابن جريج عن عطاء عن ابن عباس رفعه من التواضع أن يشرب الرجل من
سؤر أخيه“ ترجمہ : یہ
حدیث کہ مسلمان کے لعاب میں
شفا ہے ، معنیٰ کے لحا ظ سے صحیح ہے ، صحیحین
میں ہے کہ جب کسی انسان کے
تکلیف ہوتی یا پھوڑا یا زخم ہوتا ،تو نبی پاک صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی شہادت کی انگلی زمین پر رکھتے پھر اسے
اٹھا کر یہ پڑھتے : اللہ عزوجل کے نام سے ، ہماری زمین کی
مٹی ،ہم میں سے کسی کے
لعاب کے ذریعے ،ہمارے رب کے حکم سے ، ہمارا مریض شفا پائے گا۔اس
کے علاوہ ملتے جلتے الفاظ کےذریعےبھی
دعا مانگتے ۔بہر حال یہ جو حدیث لوگوں میں مشہور
ہے کہ مسلمان کے جھوٹے میں شفا ہے (
یہ بھی اگرچہ لفظی طور پر صحیح نہیں ہے ،
لیکن اس کی تصدیق )
امام دار قطنی کی " الافراد " نامی کتا ب میں بیان
کردہ اس حدیثِ پاک :”کسی شخص کا اپنے
بھائی کے جھوٹے میں سے پینا عاجزی کی علامت ہے ۔“ سے ہوجاتی ہے جس کو ان حضرات نے روایت کیا یعنی : نوح بن
ابی مریم عن ابن جریج عن عطاء عن ابن عباس مرفوعا ۔( المقاصد الحسنۃ ، صفحہ 373 ، مطبوعہ دارالکتب العربی ، بیروت)
علامہ علی
قاری رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ نے”الاسرار المرفوعة في الاخبار الموضوعة “ میں بھی یہی لکھا ہے۔ ( الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ، صفحہ
209 ، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت )
علامہ اسماعیل عجلونی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ”کشف
الخفاء “میں بھی ایسے ہی لکھا ہے۔ (کشف الخفاء، جلد 1 ،صفحہ 436 ، مطبوعہ القاھرۃ )
اور شیخ الاسلام و
المسلمین اعلیٰ حضرت
امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) کی ایک عبارت سے بھی
معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیثِ پاک
معناً درست ہے ، چنانچہ آپ علیہ
الرحمۃ لکھتے ہیں :”باقی رہا مسلمان کا جھوٹا وہ
کھانا کوئی ذلت نہیں ، حدیث میں اسے شفا فرمایا۔“ ( فتاویٰ
رضویہ ، جلد 22 ،صفحہ 568 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
دوسری قسم کی روایت :
علامہ شاذلی ہندی نے "کنزالعمال "میں ، امام دار قطنی نے " الافراد " میں ، علامہ جلال
الدین سیوطی نے" جامع الاحادیث" میں ، علامہ
ابنِ حجر ہیتمی نے" الزواجر
" میں اور کئی
محدثینِ کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِم نے اپنی
کتب میں اس روایت کو
بیان کیا : ”من التواضع أن يشرب الرجل من سؤر أخيه، فما شرب رجل
سؤر أخيه إلا كتب له سبعون حسنة، ومحيت عنه سبعون خطيئة، ورفعت له سبعون درجة “ ترجمہ
: یہ بات تواضع و عاجزی
میں سے ہے کہ بندہ اپنے بھائی کا جھوٹا پیئے ، تو جو اپنے بھائی
کا جھوٹا پیئے گا اس کے لیے ستر نیکیاں لکھی
جائیں گی ، ستر گناہ مٹا دئیے جائیں گے اور ستر درجات
بلند کر دئیے جائیں گے ۔( کنزالعمال ، جلد 3 ،صفحہ 115 ، مطبوعہ
مؤسسۃ الرسالۃ )
حدیثِ پاک کی تحقیق:
اس حدیث کی
سند پر اگرچہ بعض محدثین نے کلام کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں
" نوح بن ابو مریم "
نامی راوی ہے جو انتہائی مجروح ہے ، لیکن اس بنا پر
اس حدیث کو سرے سے ہی موضو ع
نہیں کہہ سکتے :
اوّلاً تو اس لیے
کہ بہت سے محدثین کرام علیہم الرحمۃ نے اس حدیث کے راوی پر کلام کے باوجود
اسے قبول کیا ہے اور بلکہ نا صرف
قبول کیا ہے ، بلکہ اس کو شاہد کے طور پر بھی پیش کیا ہے
، جیساکہ اوپر بیان کردہ جزئیات میں یہ بات واضح
طور پر دیکھی جا سکتی ہے ۔
ثانیاً اس لیے
کہ اس حدیثِ پاک كا ایک دوسرا طریق بھی ہے جس کو
امام ابو بکر احمد بن ابراہیم
اسماعیلی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات : 371 ھ) نے اپنی کتاب " المعجم " میں
روایت کیا ہے اور اس
کی سند میں " نوح بن ابو مریم " راوی ہے ہی نہیں ، بلکہ اس سند کے ساتھ یہ روایت
موجود ہے :” أخبرني علي بن محمد بن حاتم أبو الحسن القومسي من حدادة بجرجان حدثنا
جعفر بن محمد الحداد القومسي، حدثنا إبراهيم بن أحمد البلخي، حدثنا الحسن بن رشيد
المروزي، عن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس، أن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال:"من التواضع أن يشرب
الرجل من سؤر أخيه، فما شرب رجل سؤر أخيه إلا كتب له سبعون حسنة ومحيت عنه سبعون خطيئة
ورفعت له سبعون درجة“( المعجم فی اسامی ، جلد 3 ،صفحہ
753 ، مطبوعہ مکتبۃ العلوم والحکم ،
مدینۃ المنورۃ )
اسی
بات کو امام جلال الدین سیوطی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب " اللآلی
المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ " میں بیان کیا ہے ،
چنانچہ امام دار قطنی علیہ الرحمۃ کی " الافراد
" میں روایت کردہ
حدیثِ پاک نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ”تفرد به نوح وهو متروك (قلت) له متابع قال الاسماعيلي
في معجمه “... ترجمہ
: اس روایت کو بیان
کرنے میں نوح نا می راوی متفر د ہے اور وہ متروک ہے ،
لیکن میں کہتا ہوں کہ اس کا ایک دوسری سند کے ساتھ متابع
موجود ہے ، اسماعیلی نے اپنی معجم میں بیان
کیا کہ۔۔۔ الخ(پھر امام اسماعیلی
علیہ الرحمۃ کی مکمل سند بیا
ن کی ) ۔ ( اللآلی المصنوعۃ ، جلد 2 ،صفحہ 219
، 220 ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ،
بیروت )
تیسری قسم
کی روایت :
یہ
روایت بھی درست ہے ، چنانچہ وضو سے بچے ہوئے پانی کو پینے
کے متعلق علامہ ابوحفص عمربن احمد بن عثمان بغدادی المعروف ابن شاہین(سالِ وفات: 385 ھ) اپنی کتاب ”الترغیب فی فضائل الاعمال وثواب
ذلک “ میں اپنی سَند سے صحابہ کرام علیھم
الرضوان کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں کہ”سمعنا
النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول :الشرب من فضل وضوء المومن
فیہ شفاء من سبعین داء“ ترجمہ:ہم نے نبی کریم
صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو
فرماتے ہوئے سنا کہ مومن کے وضو کے بچے ہوئے پانی میں ستربیماریوں
سے شفاء ہے ۔(الترغیب
فی فضائل الاعمال وثواب ذلک ،صفحہ154،حدیث 536،مطبوعہ بیروت)
اسی طرح یہ حدیثِ پاک "کنزالعمال " ، "الفردوس " ، "جامع
الاحادیث " وغیرھا کتبِ احادیث
میں بھی موجود ہے ۔
او ر شیخ الاسلام و المسلمین
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ /1921ء) لکھتے ہیں:”بقیہ وضو کیلئے شرعاً عظمت واحترام ہے اورنبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ثابت کہ حضور نے وضو فرما
کر بقیہ آب کو کھڑے ہوکرنوش فرمایااور ایک حدیث میں
روایت کیا گیاکہ اس کا پینا ستر(70) مرض سے شفاء ہے،تو وہ
ان اُمور میں آب زمزم سے مشابہت رکھتا ہے۔“(فتاوی
رضویہ جلد4، صفحہ575 ، مطبوعہ
رضا فاؤنڈیشن لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟