Lakri Ke Bartan Istimal Karne Se Mutalliq Hadees Pak Ki Shara

لکڑی کے برتن استعمال کرنے سے متعلق ایک  حدیثِ پاک کی شرح

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-6981

تاریخ اجراء: 07ذوالقعدۃ الحرام1443ھ/07جون 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بہت وائرل ہو رہی ہے، جس میں صحیح بخاری کے حوالہ سے یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ ’’نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکڑی کے تراشے ہوئے برتنوں سے منع فرمایا اور فرمایا کہ اسے حفظ کر لو‘‘، تو رہنمائی فرمائیں کہ کیا فی زمانہ لکڑی کا کوئی بھی برتن استعمال نہیں کر سکتے ہیں؟ اگر کر سکتے ہیں، تو پھر اس حدیث کا کیا جواب ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     آپ کے سوال کا اجمالی جواب یہ ہے کہ پوسٹ میں ذکر کیےگئے الفاظ کہ ’’رسول پاک  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکڑی کے تراشے ہوئے برتن سے منع فرمایا‘‘ سے بظاہر یہ سمجھ آرہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکڑی کے ہر تراشے ہوئے برتن سے منع فرمایا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اس حدیث میں ممانعت ’’لکڑی کے ایک خاص قسم کے برتن‘‘ کی تھی اور یہ ممانعت بھی مخصوص وجوہات کی بناء پر تھی، پھر جب ممانعت کی وجوہات ختم ہو گئیں، تو ممانعت کا حکم بھی منسوخ ہو گیا۔ پھر نہ صرف یہ بلکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام خود لکڑی کے پیالے میں (پانی، نبیذ، دودھ اور شہد وغیرہ) مشروبات نوش فرمایا کرتے تھے، اس لئے فی زمانہ لکڑی کا ہر برتن استعمال کرنا شرعاً جائز و درست ہے۔

     جواب کی تفصیل جاننے کے لئے اولاً اس حدیث پاک کا مختصر پسِ منظر ملاحظہ فرمائیں، جس کا حوالہ پوسٹ میں دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابو جمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’عبد القیس کا وفد احکامِ شرع سیکھنے کی غرض سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، تو مختلف امور کے ساتھ اپنے مشروبات اور برتنوں کے متعلق بھی پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں دیگر احکامات بیان فرمائے، وہیں اُنہیں چار طرح کے برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا۔جن کی تفصیل یہ ہے:

     الحنتم: شراب پینے کے لئے استعمال ہونے والا سبز کوزہ۔

     الدباء: کھوکھلا کیا ہوا پکا کدو یا کدو کی شکل کی صراحی۔

     النقیر: درخت کی جڑ جسے کھوکھلا کر کے اس میں شراب رکھتے اور پیتے تھے (اور پوسٹ میں اسی برتن کو  ’’لکڑی کے تراشے ہوئے برتن ‘‘ کہہ کر بیان کیا گیا  ہے)۔

     المزفت: تار کول (سیال مادہ) سے روغن کیا ہوا شراب پینے کا پیالہ۔

محدثین کرام نے ان برتنوں کے استعمال سے ممانعت کی مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں:

      (1) چونکہ یہ برتن شراب پینے کے لئے ہی استعمال ہوتے تھے، تو شراب کے علاوہ کسی  اور مشروب کے لئے استعمال کرنے سے بھی شراب پینے کا شبہ ہو سکتا تھا، لہذا منع فرما دیا ، تا کہ مشابہت کی صورت نہ بنے۔

      (2) ان برتنوں میں شراب کا اثر باقی تھا، پھر  جب ایک مدت گزر گئی اور ان میں سے شراب کا اثر ختم ہو گیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے استعمال کو مباح فرما دیا۔

      (3) چونکہ اس وقت شراب نئی نئی حرام ہوئی تھی، اگر یہ برتن استعمال ہوتے رہتے، تو ممکن تھا کہ استعمال کرنے والوں کو چھوٹی ہوئی شراب پھر یاد آ جاتی، اس لئے ان کے استعمال سے بھی منع فرما دیا، پھر کچھ عرصہ بعد یہ اندیشہ زائل ہونے پر ان کی حرمت والا حکم بھی منسوخ ہو گیا۔

     اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جن خدشات کی بناء پر ان برتنوں کے استعمال سے منع کیا گیا، ان کے دور ہونے پر برتنوں کے استعمال کی اجازت دیدی گئی تھی ، لہذا فی زمانہ لکڑی کے ہر طرح کا برتن استعمال کرنا شرعاً جائز و درست ہے۔

     مذکورہ تفصیل کے مطابق جزئیات بالترتیب ملاحظہ فرمائیں:

     پوسٹ میں ذکر کردہ حدیث کا پسِ منظر:

     صحیح بخاری میں حضرت سیدنا ابو جمرہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ قالوا: يا رسول الله انا لا نستطيع ان نأتيك الا في الشهر الحرام، وبيننا وبينك هذا الحي من كفار مضر، فمرنا بامر فصل، نخبر به من وراءنا وندخل به الجنة وسالوه عن الاشربة: فامرهم باربع، ۔۔۔ونهاهم عن اربع: عن الحنتم والدباء والنقير والمزفت  وربما قال: المقير وقال: احفظوهن واخبروا بهن من وراءكم‘‘ ترجمہ: وفد عبد القیس نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ) عرض کی: یا رسول اللہ!حرمت والے مہینوں کے علاوہ کسی اور مہینے میں آپ کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہو سکتے، ہمارے اور حضور علیہ السلام کے مابین کفار کا قبیلہ مضر ہے، آپ ہمیں واضح حکم دیں جو ہم اپنے پیچھے والوں کو بتا دیں اور جس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو جائیں، (پھر) انہوں نے پینے والی چیزوں کے متعلق بھی پوچھا، حضور علیہ السلام نے انہیں چار چیزوں کا حکم دیا۔۔۔ اور چار چیزوں سے منع کیا، حنتم، دباء، نقیر اور مزفت، کبھی مقیر کہتے اور فرمایا: اسے یاد کر لو اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بتا دینا ۔ ‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 13،  مطبوعہ کراچی)

     ممانعت والے برتنوں کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے عارف باللہ شیخِ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (جس کا خلاصہ یہ ہے): ’’الحنتم: سبز کوزہ کو کہتے ہیں۔ الدباء: کدو کو کہتے ہیں، یا تو خود کدو مراد ہے، جسے وہ لوگ برتن کے طور پر استعمال کرتے تھے یا کدو کی شکل کی صراحی مراد ہے، جو وہ بنایا کرتے تھے۔ النقیر: نقر کا معنی کھوکھلا کرناہے، یہاں درخت کی جڑ مراد ہے، جسے کھرچ کر پینے کا برتن بناتے تھے اور پھر اس میں شراب پیتے تھے اور المزفت: وہ چیز جو زفت سے طلائی گئی ہو، زفت ایک سیال چیز ہے جسے کشتی وغیرہ چیزوں کی درزوں پر ملتے ہیں تاکہ پانی اندر نہ آئے، زفت کو قاروقیر (لُک) بھی کہتے ہیں۔‘‘(ملخصاً از اشعۃ اللمعات، جلد 1، صفحہ 238، فرید بک اسٹال، اردو بازار، لاھور)

     ان برتنوں سے منع کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ هذه الظروف كانت مختصة بالخمر، فلما حرمت الخمر حرم النبي صلى الله عليه وسلم استعمال هذه الظروف، اما لان في استعمالها تشبيها بشرب الخمر واما لان هذه الظروف كانت فيها اثر الخمر، فلما مضت مدة اباح النبي صلى الله عليه وسلم استعمال هذه الظروف، فان اثر الخمر زال عنها ‘‘ ترجمہ: یہ برتن شراب کے ساتھ خاص تھے، تو جب شراب حرام ہوئی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال کو بھی حرام فرما دیا، یا تو اس لئے کہ ان کے استعمال سے شراب پینے سے تشبیہ ہو گی یا اس لئے کہ ان میں شراب کا اثر باقی تھا، پھر جب ایک مدت بیت گئی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے استعمال کو مباح فرما دیا کہ اب شراب کا اثر زائل ہو چکا تھا۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 90، مطبوعہ بیروت)

     ممانعت کی ایک اوروجہ ذکر کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’چونکہ اس وقت شراب نئی نئی حرام ہوئی تھی، اگر یہ برتن استعمال ہوتے رہے، تو ممکن تھا کہ انہیں چھوٹی ہوئی شراب پھر یاد آ جاتی، اس لئے ان کا استعمال حرام کر دیا گیا، پھر کچھ عرصہ بعد یہ حرمت منسوخ ہو گئی، جیسا کہ دوسری روایت میں ہے‘‘۔(مراۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 38، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

     ممانعت کا حکم منسوخ کرنے والی روایت جامع ترمذی میں کچھ یوں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ اني كنت نهيتكم عن الظروف وان ظرفا لا يحل شيئا ولا يحرمه وكل مسكر حرام‘‘ ترجمہ: میں نے تمہیں برتنوں کے استعمال سے منع کیا تھا، بے شک برتن کسی چیز کو نہ حلال کر سکتے ہیں نہ حرام، (البتہ) ہر نشہ آور چیز حرام ہے‘‘۔(جامع ترمذی، ابواب الاشربہ، باب ما جاء فی الرخصۃ ان ینبذ فی الظروف، جلد 2، صفحہ 9، مطبوعہ کراچی)

     ایک اور حدیث میں ہے، رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:’’نهيتكم عن النبيذ الا في سقاء، فاشربوا في الاسقية كلها ولا تشربوا مسكرا‘‘ ترجمہ: میں نے تمہیں سقاء کے علاوہ میں نبیذ پینے سے منع کیا تھا، پس (اب)تمام برتنوں میں نبیذ پیو اور نشہ آور مشروبات نہ پیو‘‘۔(صحیح مسلم، باب استئذان النبی صلی اللہ علیہ وسلم ربہ فی زیارۃ قبر امہ، جلد 2، صفحہ 672، مطبوعہ بیروت)

     نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے استعمال میں لکڑی کا پیالہ تھا۔ چنانچہ حضرت سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ اخرج الينا انس بن مالك قدح خشب غليظا مضببا بحديد، فقال: يا ثابت! هذا قدح رسول الله صلى الله عليه وسلم۔۔۔لقد سقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بهذا القدح الشراب كله: الماء والنبيذ والعسل واللبن ‘‘ ترجمہ: حضرت انس بن مالک ہمارے پاس لکڑی کاپیالہ لے کر آئے، جس پر مضبوطی کے لئے لوہا چڑھا یا گیا تھا، پھر فرمایا: اے ثابت! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیالہ ہے، ۔۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پیالے میں تمام مشروبات یعنی پانی، نبیذ، شہد اور دودھ پلاتا تھا۔‘‘(الشمائل المحمدیہ للترمذی، باب ما جاء فی قدح النبی صلی اللہ علیہ وسلم، صفحہ 120، مطبوعہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم