Lahn Jali Ki Ghalatiyon Par Mushtamil Qirat Sunne Ka Hukum

لحن جلی کی غلطیوں پر مشتمل قراءت سننے کا حکم

مجیب: مفتی   محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8759

تاریخ اجراء: 25 رجب المرجب1445ھ/06 فروری 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ ایسی قراءت  جو لحنِ    جلی کی غلطیوں پر مشتمل ہو، اُسے بھی توجہ سے سننے کا حکم ہے؟ جیسا کہ قراءت کو سننے کے متعلق عام حکم شرعی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر قراءت  واقعی لحنِ جلی کی غلطیوں پر مشتمل ہو، تو ایسی تلاوت کو توجہ سے سُننا ناجائز، گناہ اور حرام ہے ۔ ایسی صورت میں ممکن ہو، تو پڑھنے والے کو گناہ سے بچانے کی نیت سے سمجھانا چاہیے کہ وہ درست انداز میں تلاوت کرے اور اگر نہیں آتی ،تو سیکھے۔

   امام کمال الدین  ابنِ ہُمَّام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:861ھ/1456ء) لکھتےہیں:’’أن ‌التلحين هو إخراج الحرف عما يجوز له في الأداء، وهو صريح في كلام الإمام أحمد فإنه سئل عنه في القراءة فمنعه، فقيل له لم؟ قال ما اسمك؟ قال محمد، قال له: أيعجبك أن يقال لك يا موحامد، قالوا: وإذا كان لم يحل في الأذان ففي القراءة أولى وحينئذ لا يحل سماعها أيضا‘‘ ترجمہ:”تلحین“یہ ہے کہ  حرف کو منہ کے اُس حصہ مخصوصہ سے ہٹا کر پڑھنا کہ جہاں  سے اُس کی ادائیگی درست تھی۔ یہ امام احمدرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام میں مصرح ہے کہ اُن سے قراءت میں ”تلحین “ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ نے منع فرمایا، بلکہ سائل سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے، اُس نے کہا ”محمد“، آپ نے فرمایا:کیا تمہیں پسند ہو گا کہ کوئی تمہیں ”یا مُوْحَامِدُ“ کہے؟(یعنی تمہارے نام میں تلحین کرے) فقہائے کرام نے فرمایا کہ جب تلحین اذان میں حلال نہیں، تو قراءت کرتے ہوئے بدرجہ اولیٰ حلال نہ ہو گی اور اُس وقت کہ جب قراءت ملحونہ ہو، تو اُس کا سُننا بھی حلال نہیں ہو گا۔(فتح القدیر، جلد01، صفحہ253، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   زین الدین علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 970ھ/1562ء) نے لکھا:’’لا يحل ‌سماع ‌المؤذن إذا لحن كما صرحوا به ودل كلامه أنه لا يحل في القراءة أيضا‘‘ ترجمہ:جب مؤذن اذان میں لحن  جلی کرے، تو اُس کی اذان کی طرف توجہ کرنا ہی حلال نہیں، جیسا کہ فقہائے کرام نے تصریح فرمائی اور صاحبِ ”فتح القدیر“ کے کلام  نے بھی اِسی پر دلالت کی کہ قراءت میں بھی لحنِ جلی حلال نہیں (اور اُس کا استماع بھی درست نہیں۔)(بحر الرائق، جلد01،صفحہ446،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   علامہ ابن عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ/1836ء) نے بھی ”بحر الرائق“ سے نقل کیا:’’قد ذكر في البحر أنهم صرحوا بأنه لا يحل سماع المؤذن إذا لحن كالقارئ ‘‘ ترجمہ:”بحر الرائق“ میں ذکر کیا گیا کہ فقہائے کرام نے تصریح فرمائی کہ مؤذِّن لحن جلی کرے، تو اُس کی اذان کی طرف توجہ کرنا ، جائز نہیں، جیسا کہ اگر تلاوت کرنے والا لحن جلی کرے تو اُس کی تلاوت کو توجہ سےسماعت کرنا، جائز نہیں۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 02، صفحہ 622 ، مطبوعہ   دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

   اصولِ تجوید کے متعلق معروف کتاب”فوائدِ مکیہ“ میں ہے:’’اگر لحنِ خفی لازم آئے، تو مکروہ اور اگر لحن جلی لازم آئے، تو (تلاوت)حرام وممنوع ہے۔ پڑھنا اور سننادونوں کا ایک حکم ہے۔(یعنی لحنِ جلی کرتے ہوئے قراءت بھی حرام اور اُس کا سننا بھی حرام۔)(فوائدِ مکیہ، صفحہ 26، مطبوعہ  جھلم)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم