مجیب: مولانا جمیل احمد غوری
عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1249
تاریخ اجراء: 21جمادی الاول1445 ھ/06دسمبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میں نے اسکول کی اسلامیات کی کتاب
میں ایک حدیث ِپاک پڑھی تھا جس کا مفہوم یہ ہے :”وہ
شخص مومن نہیں ہوسکتا جس کے پڑوسی بھوکے سوئیں اور وہ پیٹ
بھر کر کھانا کھا کر سوئے“
سوال یہ
ہے کہ یہ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کتبِ حدیث میں ملتے ہیں
یا نہیں ؟اور اگر یہ حدیث پاک ہے، تو اس کی شرح کیا
ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص
کو کامل ایمان والا قرار نہیں دیتیں کہ جو خود تو
پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کا پڑوسی بھوکا ہو۔چنانچہ معجم الکبیر میں حدیث پاک ہے
کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”لیس المؤمن بالذی
یشبع وجارہ جائع“یعنی جو خود شکم سير (پیٹ بھرا) ہو اور اس کا پڑوسی
بھوکا وہ مومن نہیں۔(المعجم الکبیر،جلد 12، صفحہ154، حدیث: 12741، مطبوعہ:قاھرہ)
مفتی احمد یار خان
نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مرآۃ المناجیح
میں اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اگر اسے اپنے پڑوسی کی بھوک و
محتاجی کی خبر ہو تب تو یہ بہت بے مروت ہے اور اگر خبر
نہیں تو بہت لاپرواہ ہے۔مؤمن کو چاہیے کہ اپنے عزیزوں
قرابت داروں،پڑوسیوں محلہ والوں کے حالات کی خبر رکھے،اگر کسی
کی حاجت مندی کا پتہ چلے تو ان کی حاجت روائی کو
غنیمت جان کر کرے۔‘‘(مرآۃ المناجیح،جلد6،صفحہ391،قاری
پبلشرز،لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟