Kya Tajweed Quran Sikhna Farz Wajib Hai ?

کیا تجوید سیکھنا فرض واجب ہے ؟ کیا اِس کے بغیر قرآنِ پاک پڑھ سکتے ہیں ؟

مجیب: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: Grw-236

تاریخ اجراء: 08جمادی الاولیٰ1443ھ/13دسمبر2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ قرآن پاک کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟نیز جس شخص نے  تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا نہیں سیکھا ہوا،  لیکن تجوید سیکھنے پر قادر ہے، تو  کیا وہ بغیر تجوید سیکھے قرآن پاک کی تلاوت کرسکتا ہے یا اس کے لیے تجوید سیکھنا ضروری ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قرآن پاک کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کی علمائے کرام نے تین حدود بیان فرمائی ہیں:

   (1)قرآن عظیم ٹھہر ٹھہر کراتنی آہستگی کے ساتھ تلاوت کرنا کہ سننے والا چاہے ، تو ہر کلمے کو جدا جدا گن سکے،نیز  حروف کو اُن کی صفات شدّت و جہر و امثالہا کے حقوق پورے دیے جائیں، اظہار و اخفا ، تفخیم و ترقیق وغیرہا محسنات کا لحاظ رکھا جائے ،اس قدر تجوید کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت مسنون ہے اور اس کا ترک مکروہ و ناپسندہے۔

   (2) مدووقف ووصل کے ضروریات اپنے اپنے مواقع پر ادا ہوں، کھڑے پڑے(زیر ، زبر ) کا لحاظ رکھا جائے، بالجملہ کوئی حرف و حرکت بے محل دوسرے کی شان اخذنہ کرے ،نہ کوئی حرف چھُوٹ جائے، نہ کوئی اجنبی پیدا ہو، نہ محدود ومقصور ہو، نہ ممدود،اس قدرتجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا  فرض و واجب ہے اور اس کا تارک گنہگار ہے۔

   (3)حروف وحرکات کی تصحیح ،ا ع،ت ط، ث س ص، ح ہ ،ذ ز ظ وغیرہا میں تمیز کرنا ،غرض ہرکمی و زیادتی و تبدیلی جو معنی کو فاسد کر دےاس سے احتراز کرنا،یہ بھی فرض ہے ۔

   لہذا پوچھی گئی صورت میں ایسا شخص جو  قرآن پاک کو اس قدر تجوید کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا  جتنی تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا فرض ہے  اور سیکھنے پر بھی  قادر ہے، تو اس پر لازم ہے ،پہلے  تجوید سیکھے ،اس کے بعدتلاوتِ قرآن کرے ،کیونکہ اس کے بغیر وہ لحن(غلطی)  کرے گا اور قرآن پاک میں لحن کرنا حرام ہے۔

   قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا﴾ترجمہ کنز الایمان:’’اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔‘‘

   اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:’’رعایتِ وقوف اور ادائے مخارج کے ساتھ اور حروف کو مخارج کے ساتھ تا بہ امکان صحیح ادا کرنا نماز میں فرض ہے ۔‘‘ (پارہ29،سورہ مزمل،آیت4)

   فتاوی ہندیہ میں ہے : ’’اللحن حرام بلا خلاف ‘‘ترجمہ:لحن (قرآن پاک میں غلطی)بالاتفاق حرام ہے۔(فتاوی ھندیہ،جلد5،صفحہ317،بیروت)

   بریقہ محمودیہ فی شرح طریقہ محمدیہ میں ہے:’’ والذي يكثر اللحن في القرآن إن كان قادرا على التعلم فليمتنع عن القراءة قبل التعلم فإنه عاص به ‘‘ترجمہ:وہ شخص جو  قرآن پاک  پڑھنے میں زیادہ غلطیاں کرتا ہے  اگر وہ سیکھنے پر قادر ہے، تو  وہ  سیکھنے سے پہلے  قرآن پاک پڑھنے سے رُکا رہے ،کیونکہ وہ اس کے سبب گنہگار ہوتاہے۔  (بریقہ محمودیہ فی شرح طریقہ محمدیہ،جلد4،صفحہ36،بیروت)

   موسوعہ فقہیہ میں ہے:’’(اللحن) أي الخطأ والميل عن الصواب، وهو نوعان: جلي وخفي واللحن الجلي: خطأ يطرأ على الألفاظ فيخل بعرف القراءة، سواء أخل بالمعنى أم لم يخل ۔۔۔وهذا النوع يحرم على من هو قادر على تلافيه‘‘ترجمہ:لحن کا معنی ہے :خطا کرنا اور درستگی سے  انحراف  ،اس کی دو قسمیں ہیں:جلی اور خفی۔لحن جلی ایسی خطاہے ،جو الفاظ پر طاری ہوتی ہےاور عرف قراءت میں بگاڑ پیدا کرتی ہے برابر ہے کہ معنی میں خلل پیدا کرے یا نہ کرے ،لحن کی یہ قسم اس شخص پر حرام ہے، جو اس کی تلافی پر قادر ہے ۔ (الموسوعۃ الفقھیہ الکویتیہ،جلد10،صفحہ180،مطبوعہ  کویت)

   امام اہلسنت ،اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرحمٰن فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں:’’ تجوید بنص قطعی قرآن و اخبار متواترہ سید الانس والجان علیہ وعلی آلہٖ افضل الصلوٰۃ والسلام واجماع تام صحابہ و تابعین وسائر ائمہ کرام علیہم الرضوان المستدام حق و واجب در علم دین شرع الہی ہے ۔قال ﷲ تعالٰی ﴿ورتل القراٰن ترتیلا﴾(اﷲ تعالی کا فرمان ہے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو)۔ ‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ322،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اسی میں ہے:’’ بلاشبہہ اتنی تجوید جس سے تصحیح حرف ہوا ور غلط خوانی سے بچے فرض عین ہے،بزازیہ وغیرہ میں ہے:’’ اللحن حرام بلا خلاف ‘‘(لحن بلا خلاف حرام ہے)۔‘‘   (فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ343،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   مزید اسی میں ایک مقام پر فرماتے ہیں:’’ ترتیل کی تین حدیں ہیں۔ ہر حد اعلیٰ میں اس کے بعد کی حد ماخوز و ملحوظ ہے۔حد اوّل :یہ کہ قرآن عظیم ٹھہر ٹھہر کر بآہستگی تلاوت کرے کہ سامع چاہے تو ہر کلمے کو جدا جدا   گِن سکے۔۔۔ الفاظ بہ تفخیم ادا ہوں ، حروف کو ان کی صفات شدت و جہر وامثالھا  کے  حقوق پورے دئے جائیں،اظہار و اخفا و تفخیم و ترقیق  وغیرہا محسنات کا لحاظ رکھا جائے،  یہ مسنون ہے اور اس کا ترک مکروہ و ناپسند۔دوم : مدووقف ووصل کے ضروریات اپنے اپنے مواقع پر ادا ہوں، کھڑے پڑے کا لحاظ رہے،حروف مذکورہ جن کے قبل نون یا میم ہوان کے بعد غنّہ نہ نکلے انّا کُنّا        کو ان کن یا انّاں کنّاں نہ پڑھا جائے ،باوجیم ساکنین جن کے بعد"ت"ہو بشدت ادا کیے جائیں کہ پ اور چ کی آواز نہ دیں ، جہال جلدی میں ابتر اور تجتنبوا کو اپتر اور تچتنبوا پڑھتے ہیں، حروف مطبقہ کا کسرہ ضمہ کی طرف مائل نہ ہونے پائے ۔ جہاں جب صراط وقاطعہ میں ص وط کے اجتماع میں    مثلًا"یستطیعون""لاتطع"بے خیالی کرنے والوں سے حرف تا بھی مشابہ طا ادا ہوتا ہے، بلکہ بعض سے"عتو"میں بھی بوجہ تفخیم عین و ضمہ تا آواز مشابہ طا پیدا ہوتی ہے ۔ بالجملہ کوئی حرف و حرکت بے محل دوسرے کی شان اخذنہ کرے ،نہ کوئی حرف چُھوٹ جائے، نہ کوئی اجنبی پیدا ہو، نہ محدود ومقصود ہو نہ ممدود ، اس قدر ترتیل فرض و واجب ہے اور اس کا تارک گنہگار ۔۔۔سوم :جو حروف وحرکات کی تصحیح ا ع،ت ط، ث س ص، ح ہ ،ذ ز ظ وغیرہا میں تمیز کرے ۔ غرض ہر نقص و زیادت و تبدیل سے کہ مفسد معنی ہو احتراز یہ بھی فرض ہے ۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ275تا 281 ملتقطاً،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم