مجیب: عبدالرب شاکرعطاری مدنی
مصدق:مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar- 9102
تاریخ اجراء: 18ربیع الاول1446 ھ/23ستمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قرآن مجید کو بےوضو چھونا ،ناجائز وگناہ ہے،جس کی ممانعت قرآن و احادیث میں موجود ہے اور یہ فقط احناف کا مؤقف نہیں ہے،بلکہ جمہور صحابہ اور بقیہ تینوں ائمہ امام مالک،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکا بھی یہی مؤقف ہے،ہاں بغیر وضو کے قرآن مجید کو ہاتھ لگائے بغیر پڑھنا جائز ہے،مگر مستحب یہی ہے کہ باوضو ہوکر ذکر اللہ کیا جائے ۔
بےوضو قرآنِ پاک چھونے کی ممانعت کے متعلق ارشادِ خداوندی ہے:﴿ لَا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ ﴾ ترجمہ کنز الایمان:’’اسے نہ چھوئیں، مگر باوضو۔‘‘ (القرآن الکریم،پارہ 27،سورۃ الواقعہ، آیت 79 )
مذکورہ بالا آیت کے تحت تفسیرروح البیان،تفسیر سمرقندی ،تفسیر ثعلبی ،تفسیر ماوردی، تفسیر بغوی،تفسیر بیضاوی، تفسیر خازن،تفسیر الثعالبی تفسیر در منثور اور تفسیر آلوسی میں ہے :واللفظ للآخر:”والمراد بالمطهرون المطهرون عن الحدث الاصغر والحدث الاكبر بحمل الطهارة على الشرعيۃ“ترجمہ:اس آیت میں﴿الْمُطَهَّرُوْنَ﴾سے مراد وہ ہیں کہ جو حدث اصغر(بے وضو) اور حدث اکبر(حالتِ جنابت) سے پاک ہیں، طہارت کو طہارت شرعیہ پر محمول کرتے ہوئے ۔( تفسير آلوسی ،جلد14،صفحہ 154،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)
اسی آیت کے تحت شیخ القرآن مفتی محمد قاسم عطاری دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ الْعَالِیَہْ لکھتے ہیں :”قرآن عظیم کو چھونے کے لیے وضو کرنا فرض ہے۔۔۔جس کا وضو نہ ہو ،اسے قرآنِ مجید یا اس کی کسی آیت کا چھونا حرام ہے۔“(صراط الجنان ،ج 9،ص703 ، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
موطا امام مالك ،جامع الصغیر للسیوطی،سنن دارقطنی، کنز العمال ،مشکوٰۃ المصابیح، جامع الاحادیث للسیوطی اورسنن الکبری للبیہقی میں ہے : واللفظ للآخر: ”عن سالم رضی اللہ عنہ قال: قال النبى صلى اللہ عليه وآلہ وسلم :لا يمس القرآن إلا طاهرا “ ترجمہ: حضرت سالم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا :قرآن پاک کو پاک شخص ہی چھوئے ۔(سنن الكبرى للبیھقی، کتاب الزکوٰۃ،جلد 4، صفحہ 149، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت )
مذکورہ حدیثِ پاک کے تحت فیض القدیر،لمعات التنقیح ،المفاتیح فی شرح المصابیح،مراٰۃ المناجیح اورمرقاۃ المفاتیح میں ہے:واللفظ للآخر: ”المحدث فإنه ليس له أن يمسه إلا بغلاف متجاف“ترجمہ: بے وضو شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ قرآن پاک کو چھوئے ،مگر ایسے غلاف کے ساتھ جو قرآن پاک سے جدا ہو۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد2، صفحہ441، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
جمہور صحابہ اور علماء کے مؤقف کے متعلق امام ابو حفص سراج الدین عمر بن ولی بن عادل رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:” فالجمهور على المنع من مسّه على غير طهارة لحديث عمرو بن حزم، وهو مذهب علي وابن مسعود وسعد بن أبي وقاص وسعيد بن زيد وعطاء والزهری والنخعي والحكم وحماد وجماعة من الفقهاء منهم مالك والشّافعي“ ترجمہ: جمہور علماء بغیر طہارت کے قرآن پاک کو چھونے سے منع کرتے ہیں، حضرت عمرو بن حزم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی حدیث کی وجہ سے اور یہی حضرت علی، حضرت ابن مسعود، سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہم اور حضرت عطا ء،زہری، نخعی، حماد اور فقہاء کی ایک جماعت رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْکا مذہب ہے، ان میں سے امام مالک اور امام شافعی ہیں۔ (اللباب في علوم الكتاب،ج 18،ص 437،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)
فقہ حنفی کی کتب الہدایہ،تبیین الحقائق،حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح،بنایہ شرح ہدایہ،بحر الرائق شرح کنزالدقائق، منحۃ الخالق،عنایہ،فتح القدیر، محیط برہانی ، فتاویٰ عالمگیری اور در مختار مع رد المحتارمیں ہے:و اللفظ للآخر:”یحرم بہ ای بالحدث الاکبر وبالاصغر مس مصحف“ ترجمہ :حدث اکبر(حالت جنابت ) اور حدث اصغر (وضو نہ ہونے ) کی حالت میں قرآنِ پاک چھونا،حرام ہے ۔(الفتاوى الھندیۃ، كتاب الطھارۃ ، جلد1،صفحہ43،مطبوعہ کراچی )
فقہ مالکیہ کی کتب النوادر والزیادات علی ما فی المدونۃ ،المعونہ علی مذہب عالم المدینہ اور تفسیر المؤطا للقناعیمیں ہے:واللفظ للآخر:”قال مالك وغيره من العلماء: لا يمس المصحف أحد ولا يحمله إلا طاهر بطهر الوضوء إكراما للقرآن“ ترجمہ:امام مالک رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہاوردیگرعلماء فرماتے ہیں کہ مصحف کو نہ کوئی چھوئے اور نہ ہی کوئی اٹھائے،مگر یہ کہ وہ وضو کی طہارت کے ساتھ پاک ہو، قرآن کی تعظیم کی وجہ سے ۔(تفسیر المؤطا للقناعی ،ابواب الصلاۃ فی رمضان ،جلد1، صفحہ 231،مطبوعہ دارالنوادر،قطر)
امام محمد بن ادریس شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:”لا یحل مس مصحف الا طاھر الطھارۃ اللتی تجزیہ للصلاۃ المکتوبۃ “ ترجمہ:مصحف کو چھونا حلال نہیں ہے، مگر ایسی طہارت کے ساتھ جس سے فرض نماز ہو جائے(غسل اور وضو دونوں ہوں، تو قرآن کو چھو سکتے ہیں)۔(کتاب الام للشافعی ،کتاب الصلاۃ،جلد 1،صفحہ 286،مطبوعہ دارالفکر ، بیروت)
فقہ حنابلہ کی کتب زاد المستنقع فی اختصار المنقع اورشرح منتہی الارادات میں ہے،واللفظ للآخر:”(ويحرم بحدث) أصغر أو أكبر مع قدرة على طهارة (صلاة ) يحرم به أيضا (مس مصحف وبعضه)“ ترجمہ : حدث ِ اصغر(بغیر وضو) اور حدث اکبر(بغیر غسل) کی حالت میں طہارت پر قدرت ہوتے ہوئے نماز پڑھنا حرام ہے اور اسی کے ساتھ قرآن یا قرآن کے کچھ حصے کو چھونا بھی حرام ہے۔(شرح منتھی الارادات للبھوتی،کتاب الطھارۃ، جلد1،صفحہ 77،مطبوعہ عالم کتب، بیروت)
بغیر وضو کے قرآن پاک پڑھنے کے بارے میں سنن ابی داؤد اور جمع الجوامع میں ہے:واللفظ للاول:” عن عبد اللہ ابن سلمة، قال:دخلت على علیّ ۔۔۔ فقال: إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كان يخرج من الخلاء فيقرئنا القرآن ويأكل معنا اللحم ولم يكن يحجبه ،أو قال: يحجزه، عن القرآن شيء ليس الجنابة“ترجمہ:حضرت عبداللہ بن سلمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: میں حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس گیا ، انہوں نے فرمایا: نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے، ہمیں قرآن پڑھاتے اور ہمارے ساتھ گوشت بھی تناول فرماتے اور انہیں قرآن پڑھنے سے کوئی چیز رکاوٹ نہیں تھی، یا فرمایا : انہیں قرآن پڑھنے سے جنابت کے سوا کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں تھی ۔(سنن ابی داؤد،کتاب الطھارۃ،باب الجنب یقرء ،جلد1،صفحہ 164،مطبوعہ دارالرسالہ العالمیہ)
اس حدیث پاک کے تحت شرح سنن ابی داؤد للعینی میں ہے:”یعلمنا القرآن عقيب خروجه من غير اشتغال۔۔۔ ويستفاد من الحديث فائدتان، الأولى: جواز قراءة القرآن للمحدث“ترجمہ:یعنی بیت الخلا سے باہر تشریف لا کر بغیر کسی مشغولیت کے ہمیں قرآن سکھاتے ۔۔۔اس حدیث سے دو فائدے حاصل ہوئے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کی تلاوت کرنا،جائز ہے۔(شرح سنن ابی داؤد للعینی،کتاب الطھارۃ،باب الجنب یقرء ،جلد1،صفحہ 510،مطبوعہ ریاض)
رد المحتار میں ہے :”المس یحرم بالحدث ولو اصغر بخلاف القراءۃ “ترجمہ:حدث اگرچہ اصغر ہو، اس حالت میں قرآن چھونا حرام ہے، بخلاف قرآن پڑھنے کے (کہ وہ جائز ہے)۔(رد المحتار،کتاب الطھارۃ، سنن الغسل ،جلد1،صفحہ 173،مطبوعہ دارالفکر بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟