Kya Nabi Pak Ki Miras Wali Hadees Ke Ravi Sirf Hazrat Abu Bakr Hain ?

کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث والی حدیث کے راوی صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ؟

مجیب: ابو حمزہ محمد حسان عطاری

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری  

فتوی نمبر: HAB-269

تاریخ اجراء: 16جمادی الاخری 1445ھ/30 دسمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ زید کا دعوٰی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ  تعالی علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ’’لا نورث ما ترکناہ صدقۃ(  ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ،ہم جو بھی چھوڑیں وہ صدقہ ہے )‘‘صرف حضرت   صدیق اکبر  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے،ممکن ہے ان سے سننے میں خطا واقع ہوگئی ہو۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ یہ حدیث  حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سےہی مروی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   زید کی بات مکمل طور پر  باطل و مردود ہے۔

   مردودیت و بطلان کی پہلی وجہ یہ ہے کہ  اس روایت کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی تنہا روایت کہہ کر یہ وسوسہ  ڈالنا کہ ممکن ہے سننے میں خطا واقع ہوگئی ہو، یہ جملے وہی ہیں،جو منکرین ِ احادیث ، جدیدیت کے شکاراور خبر واحد حدیثوں کے منکرجیسےلوگ استعمال کرتے ہیں اور یہ جملہ اسی گمراہی کی طرف قدم اٹھانا اور دین کے دو تہائی سے زیادہ ذخیرہ کو مشکوک بنانے کاطریقہ ہے۔

   زید کے قول کے مردود و باطل ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ائمہ محدثین نے اس حدیث کے متواتر ہونے  تک کی صراحت کی ہے ، 13 صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے یہ حدیث مبارک مروی ہے  اور بکثرت کتب میں اس حدیث کی تخریج کی گئی ہے ۔زید کے قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سطحی علم رکھتا، ہوائی باتیں کرتا، علم حدیث سے ناآشنا ،   کتبِ احادیث کے مطالعہ سے محروم ، فہمِ دین سے فارغ اور علم الحدیث  و علم العقائد   سے  جاہل  ہے۔

   حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے مابین ایک فیصلے میں یہی حدیث مبارک حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک جماعت کے سامنے بیان کی اور سب سے معلوم کیا کہ کیا آپ لوگوں نے یہ حدیث نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے؟ جس کا سب نے اقرار کیا کہ ہاں ہم نے سُنی ہے ۔

   بعض ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن نے بھی اس بات کا ارادہ کیا تھا کہ رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ترکے کا مطالبہ کریں، تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  نے انہیں یہی حدیث یاد دلائی تھی،جس پر انہوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا تھا۔

   افضل البشر بعد الانبیاء  حضرت سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ حدیث بیان کرنے  اور قبول کرنے میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے تھے  ،وه كس طرح بغير تحقیق وتثبت کے حدیث کو بیان کرسکتے ہیں۔

   امام ذہبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تذکرۃ الحفاظ میں فرماتے ہیں :’’ وكان أول من احتاط في قبول الأخبار ‘‘ ترجمہ : سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ پہلے شخص تھے جنہوں نے احادیث کو قبول کرنے میں احتیاط اختیار کی ۔ (تذکرۃ الحفاظ ،جلد1، صفحہ 9، دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

   امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ  اور حافظ محمد مرتضىٰ  زبیدی حنفی  رحمہ اللہ نے متواتر احادیث پر لکھی گئی اپنی کتب میں اس حدیث کو بھی شمار کیا ہے ۔

   علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: أخرجه الشيخان : عن (1) عمر (2) وعثمان (3) وعلي (4) وسعد بن أبي وقاص ومسلم : عن (5) العباس  (6) وأبي بكر الصديق (7) وعبد الرحمان بن عوف (8) والزبير بن العوام (9) وأبي هريرة. و أبو داود :عن (10) عائشة. والنسائي :عن (11) طلحة.والطبراني :عن (12) حذيفة (13) وابن عباس ثلاثة عشر نفسا رضی اللہ تعالی عنھم۔ قال فقد رواه من العشرة المشهود لهم بالجنة ثمانية نظير حديث من كذب علي ترجمہ:اس حدیث کو شیخین نے حضرت عمر، عثمان، علی،سعد بن ابی وقاص سے ؛اور امام مسلم نے حضرت عباس ،ابو بکر الصدیق ،عبد الرحمٰن بن عوف،زبیر بن عوام ، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنھم سے روایت کیا ؛ اور ابو داود نے حضرت عائشہ سے ؛ اور نسائی نے طلحہ سے ؛ اور طبرانی  نے حذیفہ اور  ابن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایت کیا۔

   یہ کُل تیرہ نفوس قدسیہ ہیں ، پھر فرمایا کہ اس حدیث کو ان دس صحابہ میں سے آٹھ صحابہ  نے بھی روایت کیا ہے، جن کو جنت کی بشارت دی گئی۔یہ حدیث ’’مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ ‘‘ والی حدیث کی مثل ہے ۔(قطف الأزهار المتناثرة في الأخبار المتواترة للسيوطي، ص 273، المكتب الإسلامي)(لقط اللآلی المتناثرۃ فی أحاديث المتواترہ، ص 88، دار الكتب العلميہ)

   حافظ مغرب شیخ جعفر الکتانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :” ثم ھذا الحدیث قال الحافظ ابن حجر أيضا في أماليه أنه حديث صحيح متواتر“ترجمہ:پھر اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنے امالی میں فرمایا کہ یہ حدیث صحیح متواتر ہے ۔(نظم المتناثر من الحديث المتواتر صفحہ 216 حدیث 272 ، طبع مصر)

   صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حضرت عثمان ، حضرت عبد الرحمن بن عوف  ، حضرت زبیر بن العوام  اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہم موجود تھے ،  پھر حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم اور حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ اپنا ایک معاملہ لے کر آئے، تو فیصلے سے قبل حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان تمام کو قسم دے کر یہ پوچھا:’’أتعلمون أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال:’’لا نورث ما تركنا صدقة؟ ‘‘ ترجمہ:کیا آپ حضرات یہ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ،ہم جو بھی چھوڑیں وہ صدقہ ہے ۔جس پر ان تمام نے کہا : ہاں ۔(صحیح البخاری، جلد 7، صفحہ 63، حدیث 5358 ،طبع بیروت )(صحیح المسلم، جلد 3، صفحہ 1377، حدیث 1757، طبع بیروت)

   امام نسائی  رحمہ اللہ تعالی نے السنن الکبری میں ذکر کیا ہے  کہ ان صحابہ کرام علیہم الرضوان میں  حضرت  سیدنا طلحہ رضی  اللہ تعالی عنہ بھی موجود تھے ۔(السنن الکبری للنسائی،جلد 6، صفحہ 98، رقم 6273، طبع مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

   مسند احمد میں سیدتنا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے:’’ أن أزواج النبي صلى اللہ عليه وسلم حين توفي رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أردن أن يرسلن عثمان إلى أبي بكر يسألنه ميراثهن من رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فقالت لهن عائشة: أوليس قد قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:لا نورث، ما تركنا  فهو صدقة ‘‘ ترجمہ:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت حضرت عثمان کو حضرت ابوبکر صدیق کے پاس بھیجنے کا ارادہ کیا تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث میں اپنے حصے کاسوال کریں، تو ان سے حضرت عائشہ نے فرمایا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد نہیں فرمایا تھا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ،ہم جو بھی چھوڑیں ،وہ صدقہ ہے ۔(مسند احمد، جلد 43، صفحہ 302 ،حدیث 26260، طبع دار الرسالہ، بیروت)

   مسند اسحاق بن راھویہ میں یہ الفاظ زائد ہیں:’’ فرضين بقولها وتركن ذلك  ‘‘ترجمہ:تو وہ تمام ازواج حضرت عائشہ کے اس قول پر راضی ہوگئیں اور اس مطالبہ کو ترک کردیا ۔(مسند اسحاق بن راھویہ، جلد 1، صفحہ 513، رقم الحدیث 865، طبع دار التأصیل)

   امام بزار  نے اپنی مسند  میں حضرت سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ حدیث روایت کی ہے ۔ اس کےرجال کے بارے میں امام ہیثمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’ورجاله رجال الصحيح ‘‘ ترجمہ: اوراس کے تمام رجال صحیح کے رجال ہیں ۔(مجمع الزوائد، جلد 4 ،صفحہ 407، رقم 7139 ،طبع دار الفکر، بیروت)

   امام مسلم صحیح مسلم میں حضرت سیدنا ابو ہریرہ سے اور امام طبرانی اوسط میں حضرت سیدنا ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہم  سے روایت کرتے ہیں :’’لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ‘‘ترجمہ:  ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ،ہم جو بھی چھوڑیں وہ صدقہ ہے ۔

   حافظ ہیثمی رحمہ اللہ تعالی  حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہم کے بارے میں فرماتے ہیں  :’’ رواه الطبراني في الأوسط وفيه إسماعيل بن عمرو البجلي وثقه ابن حبان وضعفه غيره وبقية رجاله ثقات  ‘‘ترجمہ:اس کو امام طبرانی  نےا وسط میں روایت کیا اور اس میں اسماعیل بن عمرو بجلی ہے، اس کو ابن حبان نے ثقہ اور ان کے علاوہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس کے باقی تمام رجال ثقہ ہیں۔(  صحیح المسلم ،جلد 3، صفحہ 1383، رقم 1761، طبع بیروت)( المعجم الاوسط،  جلد 5، صفحہ 157، رقم 4933، طبع  دار الحرمین ،قاھرہ)(مجمع الزوائد، جلد 8 ،صفحہ 620، حدیث 14287، طبع بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم