مجیب: ابو حفص مولانا محمد
عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-2499
تاریخ اجراء: 08شعبان المعظم1445 ھ/19فروری2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
سنا ہے کتے کی پیدائش
اس طرح ہوئی کہ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کے پتلے
پر،ناف میں تھوک دیا،وہاں سے جو مٹی گری اس سے کتا
پیدا ہوا،یہ بات درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کتے کی
پیدائش کے حوالے سےجن الفاظ کے ساتھ سوال میں روایت بیان
کی گئی ہے ،یہ بعض کتب(تفسیرروح البیان و نزھۃ
المجالس وغیرہ) میں بیان کی گئی ہے لیکن جن
کتب میں ہمیں ملی ہے ،ان میں یہ بغیرسندکے
مذکورہے اوروہ کتب ایسی ہیں کہ جن میں معتبروغیرمعتبرہرطرح
کی روایات ذکرکی جاتی ہیں ۔
عظیم محدث وفقیہ علامہ بدرالدین
عینی علیہ الرحمۃ نے اپنے بعض اکابراساتذہ کے حوالے سے کتے کی پیدائش والا واقعہ بیان
فرمایاتواس میں یہ جسم
پرتھوکنےوالےاورپھروہاں سے مٹی لینے والے الفاظ نہیں ہیں
،بلکہ اس میں یہ ہے کہ:
"شیطان نے حضرت آدم علیہ
الصلوۃ والسلام کی طرف تھوکااوراس کاتھوک منتشرہوگیا(بکھرگیا)،اس
کے بکھرے ہوئے تھوک سے کتے کی پیدائش ہوئی ۔"
چنانچہ آپ علیہ الرحمۃ شرح ابی
داؤد للعینی میں فرماتےہیں:” ولقد طرق سمعي عن بعض أساتذتي الكبار أن السبب في امتناع الملائكة من بيت
فيه كلب، أن الكلب قد خلق من بزاق الشيطان،وذلك حين كان آدم- عليه السلام- جسدا
ملقى، أتى إليه الشيطان وراءه، ثم جمع الخيول، وكانت الخيول سكان الأرض حينئذ فقال
لها: إن الله تعالى خلق خلقا عجيبا يريد أن يملكه الأرض وما فيها فمتى حكم فيها
سخركن وذللكن، فهلم نهده ونستريح منه، فجاءت والشيطان يقدمها إلى أن قربت من جسد
آدم، فبزق نحو آدم بزقة، فانتثر بزاقه،فخلق الله تعالى الكلاب من بزاقه المنثور
ذلك،۔۔۔، فمن ذلك الوقت تألف الكلاب بني آدم،والملائكة
تبغضها، لكونها مخلوقة منه، فلأجل ذلك لا يدخلون بيتا فيه كلب “ ترجمہ : میرے بعض بڑے اساتذہ کی
جانب سے میرے کانوں تک یہ بات پہنچی ہے کہ جس گھر میں کتا ہو، وہاں ملائکہ کے
داخل نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ کتا شیطان کے تھوک سے پیدا کیا
گیا ،اور یہ اس وقت ہوا کہ جب حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام فقط جسم کی صورت میں
تھے،تو شیطان اس جسم کی طرف
اس کے پیچھے سے آیا اور
گھوڑوں کو جمع کیا ،گھوڑے اس وقت زمین میں رہتے تھے ،تو اس نے
انہیں کہا :اللہ تعالی نے عجیب چیز پیدا کی
ہے اور اس کا ارادہ ہے کہ اسے زمین اور اس میں موجود سب کا مالک بنائے تو جب اسے اس میں حکومت
ملے گی تو وہ تمہیں اپنے تابع کرے گااورتمہیں کام میں
لائے گاتوچلواس کی طرف چلتے ہیں اوراس سے چھٹکاراپاتے ہیں،پس شیطان
ان کولے کرآگے بڑھایہاں تک کہ وہ حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام
کے جسم مبارک کے قریب ہوئےتو شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام
کی طرف تھوکا اور اس کا تھوک بکھر گیا تو اللہ تعالی نے اس کے
بکھرے ہوئے تھوک سے کتوں کو پیدا کیا ۔۔۔۔۔پس
اسی وقت سے کتے بنی آدم سے مانوس ہوگئے اور ملائکہ ان سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ یہ
شیطان سے پیدا کئے گئے ،پس اسی وجہ سے وہ اس گھر میں داخل
نہیں ہوتے جس گھر میں کتا موجود ہو۔(شرح ابی داؤد للعینی،ج
1،ص 505،506، مكتبة الرشد ، الرياض)
نیزیہ ناف پرتھوکنے والےالفاظ مکروہ وشنیع ہیں
،اسے امام اہلسنت علیہ الرحمۃ کے ذکرکردہ ایک اقتباس سے سمجھا
جاسکتاہے۔چنانچہ
تفسیرکی کتب میں یاجوج
ماجوج کی پیدائش کے متعلق ایک روایت میں یہ
الفاظ ہیں کہ :"حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کواحتلام
ہوااوروہ مادہ مٹی سے ملاتواس سے یاجوج ماجوج پیداہوئے "
اس پراعتراض ہواکہ انبیائے کرام علیہم
الصلوۃ والسلام تواحتلام سے پاک ہوتے ہیں ،تواس پربعض محدثین نے
اس کی تاویل بھی کی کہ یہاں احتلام سے معروف حالت
مرادنہیں ہے بلکہ کچھ اورمراد ہے لیکن امام اہلسنت علیہ الرحمۃ
نے اس تاویل کے باوجوداس پراعتمادنہ فرمایااوراس کی ایک
وجہ یہ بیان فرمائی:"لفظ شنیع ومکروہ ہے ۔"
چنانچہ عبارت یہ ہے :
"ہاں امام نووی و حافظ عسقلانی نے شروح صحیح مسلم و صحیح بخاری
میں اس کی یہ تاویل نقل کی کہ انبیاء علیھم
السلام پر فیضان زیادت فضلہ بسبب ابتلائے ادعیہ منع نہیں
اور اسے مقرر رکھا،اقول:مگر لفظ شنیع و مکروہ ہے۔"(امام احمد رضا اور اسرائیلی روایات،ص
96،دار تراث الاسلاف للتحقیق)
یقینالفظ احتلام کے مقابلےمیں
جسم پرتھوک والے الفاظ زیادہ شنیع ہیں ،اوران کاذکربھی ایک توبلاسندہے اور پھر ایسی کتب میں ہے ،جن میں معتبروغیرمعتبرہرطرح
کی باتیں بیان کی جاتی ہیں، لہذاان
پراعتماددشوارہے۔
کتب تفسیرکے حوالےسے فتاوی رضویہ
میں ہے(عربی عبارت کاترجمہ) " امام سیوطی نے نقل کیا
کہ مفسرین نے ایسے اسباب نزول اور فضائل میں وہ حدیثیں جوثابت نہیں اور نامناسب حکایات اور تواریخ
اسرائیل کو ذکر کیا ہے حالانکہ تفسیر میں ان کا ذکر مناسب
نہیں (علامہ سیوطی کی عبارت مکمل ہوئی )۔ یہی سبب
تھا کہ سیوطی اس درجہ عاجز ہوئے کہ تمام تفسیروں سے بیزاری
فرمائی اور صرف تفسیر ابن جریر کی طرف رہنمائی پر
بس کیا ۔۔۔۔
اور یقینا تمہیں معلوم ہے کہ اس لاعلاج مرض کا بیشتر حصہ
تفاسیر میں جہالت سند کے دروازہ سے گھسا اور ایسے مقامات میں
جب سند معروف نہ ہو مآل کاربات کو پرکھنا ہے تو جوبات نصوص سے ٹکراتی اور
منصوص کورد کرتی ہو یا اس میں رسل وانبیاء کی تنقیص
ہو یا اور کوئی بات جو قابل قبول نہ ہو، ہم جان لیں گے کہ یہ
قول دھو دینے کے قابل ہے ۔"(فتاوی رضویہ، ج28،ص543-44-47،رضافاونڈیشن،لاہور)
نیزیہ واقعہ "نزھۃ المجالس"
میں ہے اوربعدکی بعض کتب مواعظ میں بھی نزھۃ
المجالس کے ہی حوالے سے ہے اورنزھۃ المجالس میں" عقائق الحقائق فی
اشارات الدقائق" کے حوالےسے مذکورہے ،ان دونوں کے رتبے
سے متعلق نیچے عبارات درج کی جاتی ہیں :
(الف)عقائق الحقائق کے حوالے سے کشف الظنون میں
ہے "عقائق الحقائق لأبي النجم: ركن الدين الخطيب،
المغربي ۔ ۔و هو كتاب في: الموعظة،
إلا أنه غير مصون عن الحشو."ترجمہ:ابونجم
رکن الدین خطیب مغربی کی کتاب عقائق الحقائق وعظ و نصحیت
سے متعلق کتاب ہے مگریہ ہے کہ یہ غیرمعتبروغیرمتعلق باتوں
سے محفوظ نہیں ۔ (کشف الظنون،ج 2،ص 1149،مكتبة المثنى ، بغداد)
اس میں جولفظ"حشو"آیاہے
،اس کے معانی لغت میں غیرمعتبروغیرمتعلق بیان ہوئے
ہیں ۔چنانچہ
لسان العرب اورکتاب العین لابی عبد
الرحمن البصری (متوفی 170ھ)میں ہے” الحشو من الكلام: الفضل الذي لا يعتمد عليہ(لسان العرب،ج 14،ص 180، دار صادر ، بيروت)(کتاب العین،ج 3،ص 261،
دار ومكتبة الهلال)
تہذیب اللغۃ لابی منصور
الھروی (متوفی 370ھ)اور المحیط فی اللغۃ لصاحب ابن
عباد (متوفی 385ھ)میں ہے ”والحشو من
الكلام الفضل الذي لا يعتمد عليه“(تھذیب اللغۃ،ج 5،ص 90، دار إحياء التراث
العربي ، بيروت، المحیط فی اللغۃ،ص 237،المکتبۃ الشاملۃ)
شمس العلوم ودواء کلام العرب من الکلوم للنشوان
(متوفی 573ھ)میں ہے” والحشو من الكلام:
الكذب الذي لا أصل له“(شمس العلوم ودواء کلام العرب من الکلوم،ج 3،ص 1451،دار
الفکر،بیروت)
(ب)نزھۃ
المجالس سے متعلق "مفاکھۃ الخلان فی حوادث الزمان" میں ہے " جمع كتاباً سماه: "نزهة
المجالس"،وذكر فيه أحاديث موضوعة"ترجمہ:
علامہ صفوری نے نزھۃ المجالس نام کی کتاب جمع کی اوراس میں
موضوع روایات کاذکرکیا۔(مفاکھة
الخلان فی حوادث الزمان،ص 131،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
مفتی
اعظم پاکستان ،مفتی محمدوقارالدین علیہ الرحمۃ سے اسی
کے متعلق سوال ہواتواس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ نے اسے غیرمعتبرقراردیا۔چنانچہ
سوال ،جواب درج ذیل ہیں :
سائل نے ایک روایت لکھی:
"کتا اس لئے پلید ہے کہ جب اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ
السلام کو بنایا تو ابلیس کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو اس
نے انکار کیا اور حضرت آدم (جو ابھی محض مٹی کا بت تھے)پر تھوکا
تو اللہ تعالی نے وہاں سے مٹی نکال کر کتا بنا دیا چونکہ اس کے
تھوک کی وجہ سے وہ مٹی پلید ہو گئی تھی ،اس لئے کتا
پلید ہے"
اس روایت کے متعلق جواب میں مفتی اعظم پاکستان،حضرت علامہ مفتی وقار الدین
قادری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :”کتا بننے کی جو روایت
آپ نے لکھی ہے یہ بھی بے بنیاد اور لغو ہے،صحیح روایت
میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔"(وقار الفتاوی،ج 1،ص 342،344،بزمِ وقار الدین،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟