Kya Hazrat Ameer Muawiya Ki Shan Me Koi Hadees Nahi Hai?

کیا سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی حدیث نہیں ہے ؟

مجیب:ابوحمزہ  محمد حسان عطاری

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Hab-0046

تاریخ اجراء:18 رجب المرجب 1444ھ/10 فروری 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ  بعض لوگ کہتے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں کوئی حدیث نہیں ہے اور اسے  امام بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے استاد امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ کیا یہ بات درست ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ان بعض  لوگوں کا اس طرح کہنا بالکل غلط ہے  اور کئی وجوہ سے غلط ہے ۔

   اولا:  سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت میں  ایک سے زائد احادیث طیبہ مروی ہیں، جن میں سے تین احادیث  ملاحظہ فرمائیں:

    پہلی حدیث حسن :امام احمد مسند احمد اور فضائل الصحابہ میں حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  نے اللہ تعالیٰ  کی بارگاہ میں عرض کی :’’اللهم علمه الكتاب والحساب وقه العذاب‘‘ ترجمہ: اے اللہ اس(امیرمعاویہ ﷛) کو کتاب وحساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا ۔ (مسند احمد، ج 28، ص 383، رقم 17152)( فضائل الصحابہ، ج 2، ص 1157، رقم 1748، طبع بیروت)

   اسی معنی کی حدیث امام طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت مسلمہ بن مخلد رضی اللہ تعالی عنہ سے ،  اور امام طبرانی نے اپنی تصنیف مسند الشامیین میں حضرت عبد الرحمن بن ابی عمیرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے  روایت کی ہے۔(المعجم الکبیر، ج 19، ص 439، رقم 1066)( مسند الشامیین، ج 1 ،ص 190، رقم 333، طبع بیروت)

   دوسری حدیث حسن: امام بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنی کتاب التاریخ الکبیرمیں سند حسن کے ساتھ حضرت سیدنا وحشی بن حرب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں:’’كان معاوية ردف النبي صلى اللہ تعالى عليه وآله وسلم فقال: يا معاوية ما يليني منك ؟ قال: بطني، قال: اللهم املاه علما وحلما ‘‘حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ  سواری پر نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم   کے پیچھے  بیٹھے ہوئے تھے ، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اے معاویہ تمہارا کون سا حصہ مجھ سے ملا ہوا ہے؟ عرض کی: پیٹ، حضور پاک  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی : اے اللہ اس کو علم اور حلم سے بھر دے ۔ (التاریخ الکبیر، ج 8، ص 68، طبع دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

   تیسری حدیث حسن: امام احمد مسند میں اور امام ترمذی جامع میں بافادۂ تحسین   حضرت عبد الرحمن بن ابی عمیرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے یہ دعا کی:’’اللهم اجعله هاديا مهديا‘‘اے اللہ اس کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا ۔(مسند احمد، ج 13، ص 539، رقم 17821)(جامع الترمذی، ج 5، ص 501، رقم 3842،بیروت)

   اس کے علاوہ اور کئی احادیث طیبہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں موجود ہیں ۔

   ثانیا : امام اسحاق  بن راہویہ رحمۃ اللہ  تعالی علیہ   کی طرف اس قول کی نسبت میں کلام ہے ، اسی لیے  حافظ ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بتقدير صحته فرمایا  یعنی اگر ان کے قول  کو تسلیم کرلیا جائے، پھر آپ نے  ان کے قول کے دیگر جوابات  ارشاد فرمائے ۔

   ثالثا: امام اسحاق بن راہویہرحمۃ اللہ تعالی علیہ کی طرف جو الفاظ منسوب ہیں وہ یہ ہیں :’’لم يصح في فضل معاوية شيء‘‘  یعنی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں کوئی صحیح حدیث نہیں آئی ، اس کا معنی یہ نہیں کہ اصلا کوئی حدیث ہے ہی نہیں ، حدیث صحیح محدثین کے نزدیک حدیث کی اعلی قسم ہے، اس کے بعد بھی حدیث کے کئی درجات ہوتے ہیں ، اگر صحیح حدیث نہیں ہے، تو  حسن حدیث ہوسکتی ہے (اور اوپر حسن حدیثیں بیان کی جاچکی ہیں) ، اگر حسن حدیثیں بھی نہ ہوں ،تو ضعیف حدیثیں  ہوسکتی ہیں اور وہ بھی فضائل میں معتبر ہوتی ہیں ۔ لہذا یہ معنی لینا کہ اصلاً کوئی حدیث فضیلت میں ہے ہی نہیں، بالکل باطل ہے ۔

   اعلی حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:” بعض جاہل بول اٹھتےہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں، یہ ان کی نادانی ہے، علمائے محدثین اپنی اصطلاح پر کلام فرماتے ہیں، یہ بے سمجھے خدا جانے کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں، عزیز ومسلم کہ صحت نہیں پھر حسن کیا کم ہے ، حسن بھی نہ سہی یہاں ضعیف بھی مستحکم ہے۔‘‘( فتاوی رضویہ، ج 5، ص 478، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   حافظ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :’’ولك أن تقول إن كان المراد من هذه العبارة أنه لم يصح منها شيء وفق شرط البخاري فأكثر الصحابة كذلك ولم يصح شيء منها، وإن لم يعتبر ذلك القيد فلا يضره ذلك لما يأتي أن من فضائله ما حديثه حسن حتى عند الترمذي كما صرح به في جامعه، وستعلمه مما يأتي، والحديث الحسن لذاته كما هنا حجة إجماعا  بل الضعيف في المناقب حجة أيضا‘‘اس طرح کی عبارت کے جواب میں تم یہ کہہ سکتے ہو  کہ اگر اس عبارت سے مراد یہ ہے کہ(فضائلِ معاویہ پر) کوئی حدیث (مثلا)امام بخاری کی شرط پر صحیح نہیں ہے، تو اکثر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کا معاملہ اسی طرح ہے ، ان کے فضائل میں بھی کوئی حدیث اس شرط پر  صحیح نہیں۔(تو کیا سارے صحابہ معاذاللہ فضائل سے خالی ہوگئے یا ان کی شان میں مروی حسن یا ضعیف احادیث غیر معتبر ہوگئیں؟ ہر گز نہیں۔ تو جب باقی صحابہ کا یہ معاملہ ہے، تو ایسے ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہے۔) اور اگر اس شرط کا اعتبار نہ کیا جائے ،تو بھی یہ مضر نہیں ،کیونکہ آگے   آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل میں حدیث حسن آرہی ہے، جو امام ترمذی کے نزدیک بھی حسن ہے ،جیسا کہ آپ رحمہ اللہ تعالی نے خود اپنی جامع میں اس کی صراحت کی ہے اور عنقریب آپ اس کو جان لیں گے اور حدیث حسن لذاتہ  جیسا کہ یہاں ہے بالاجماع  حجت ہے، بلکہ مناقب میں  تو ضعیف بھی حجت ہے  ۔(تطهير الجنان واللسان،21،  طبع بيروت)

   رابعا:  اگر یہ بات تسلیم کر بھی لی جائے کہ حضرت اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ تعالی  علیہ کے فرمان کا معنی یہ ہے کہ سرے سے کوئی حدیث آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت میں آئی ہی نہیں ہے ،تو بھی یہ امام موصوف رحمہ اللہ تعالی کی اپنی ذاتی رائے قرار پائے گی ، ورنہ بکثرت محدثین نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت میں احادیث ذکر کیں ہیں، جن میں آپ کےہم عصر ساتھی  سیدنا امام احمد بن حنبل، آپ کے شاگرد امام بخاری ، اور پھر امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین کے علاوہ بیسیوں محدثین موجود ہیں ۔

   لہذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت میں کوئی حدیث موجود نہیں ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم