مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-13512
تاریخ اجراء: 09ربیع الاول1446 ھ/14ستمبر 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ میں نے ایک پوسٹ دیکھی جس میں یہ حدیث پاک درج تھی : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیروں کو بکریاں پالنے اور غریبوں کو مرغیاں پالنے کا حکم دیا۔ اور فرمایا کہ امیروں کے مرغیاں پالنے کی صورت میں اللہ عزوجل بستی والوں کی ہلاکت کا حکم ارشاد فرماتا ہے۔‘‘ کیا یہ حدیث پاک درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں ذکر کی گئی حدیث پاک کو متعدد معتمد محدثین کرام مثلاً : امام ابن ماجہ علیہ الرحمۃ نے ’’سننِ ابن ماجہ ‘‘ میں، امام علاؤ الدین متقی علیہ الرحمۃنے ’’کنز العمال‘‘ میں، امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے ’’جمع الجوامع‘‘وغیرہ میں نقل کیا ہے۔ البتہ سنداً یہ حدیث ضعیف ہے، جیسا کہ علامہ سیوطی علیہ الرحمۃنے ’’جمع الجوامع‘‘میں، امام عجلونی علیہ الرحمۃنے ’’ کشف الخفاء‘‘میں، امام سخاوی علیہ الرحمۃنے’’المقاصد الحسنة ‘‘میں، ملا علی قاری علیہ الرحمۃنے’’الأسرار المرفوعة ‘‘میں اس حدیث پر ضعف کا حکم لگایا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ سند کے اعتبار سے ضعیف روایات بھی فضائل اور ترہیب کے باب میں معتبر ہوا کرتی ہیں۔
حدیثِ مبارک کے مضمون کے مرکزی نکتہ کا خلاصہ یہ ہے کہ امیر لوگ اپنے معیار کے مطابق ذرائع آمدنی اختیار کریں، غریب لوگ جن ذرائع آمدنی کو اختیار کرتے ہیں اگر امیر لوگوں نے بھی اُنہی ذرائع آمدنی کو اختیار کرنا شروع کیا ، جس کی وجہ سے غریب لوگوں کا روز گار معطل یا متاثر ہوا اور اُن غریب لوگوں کو تکلیف و اذیت پہنچی ،تو یہ عمل گناہ اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سبب ہوگا۔رہی بات مرغی پالنے کے ناجائز ہونے کی ،تو امیر کے لیے مطلقاً مرغی پالنا گناہ نہیں ہے، یہ بکری اور مرغی کا تقابل اُس دورکے حساب سے کیا گیا تھا ۔ ورنہ آج کے زمانے میں تو غریب لوگ بھی بکریاں پالتے ہیں ، خاص کر گاؤں دیہات کے لوگ ، لہذا ایسا نہیں ہے کہ امیر کا آج کے دور میں مرغی پال کر بیچنا مطلقاً گناہ ہوجائے ،بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ اِس وقت آبادی بہت بڑھ چکی ہے۔ کون سی چیز کہاں کس کو متاثر کرتی ہے؟ کس کو نہیں؟ یہ ہر جگہ کا مختلف معاملہ ہے ۔ البتہ حدیث پاک کا مرکزی نکتہ سمجھ کر ہم اس بات کو مد نظر رکھیں کہ غریب آدمی کہیں سے بھی متاثر نہ ہو، کسی صورت غریب کا روزگار اُس سے نہ چھنے۔
اس حدیث پاک میں غریب کے روزگار کی جو اہمیت بیان کی گئی ہے، اس سے اُن ٹھیکیداروں اور فیکٹری مالکان کو بھی درس حاصل کرنا چاہیے، جو غریب کی دیہاڑی کا بالکل خیال نہیں کرتے ، انہیں بلا وجہ فارغ کر دیتے ہیں ۔بعض اوقات ایسے حالات آجاتے ہیں کہ افراد کم کرنا پڑتے ہیں، لیکن پھر بھی جتنا ممکن ہو، غریب کےبے روزگار ہونے کا درد ہمیں اپنے سامنے رکھنا ضروری ہے ۔
شارحینِ حدیث کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قوم کو اُس کی اپنی حیثیت اور طاقت و قوت کے اعتبار سے کسب کے ذرائع اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے یعنی اغنیاء کو بکریاں پالنے کا حکم ارشاد فرمایا کہ یہ عموماً مہنگی ہوا کرتی ہیں، جبکہ فقراء کو مرغیاں پالنے کا حکم دیا کہ یہ بکریوں کی بنسبت کم قیمت کی ہوتی ہیں، ان کی خریداری غریبوں کی دسترس میں ہوتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ کمائی کے ذرائع اختیار کریں تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنی دنیوی ضروریات کو پورا کرسکیں اور اپنے سے غربت و محتاجی کو دور کرسکیں۔ کسب کے ذرائع اختیار کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ کمانے والے افراد دوسروں سے بے نیاز ہوجاتے ہیں اور اس کمائی کی برکت سے انہیں قناعت کی دولت بھی نصیب ہوجاتی ہے، بلکہ بعض صورتوں میں تو رزقِ حلال کی برکت سے انسان اپنی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی حاجتیں پوری کرنے لگ جاتا ہے، جبکہ اس کے برعکس اگر کمائی کے ذرائع کو ترک کردیا جائے اور ان سے روگردانی کی جائے، تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ فقیری عام ہوگی اور لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہوں گے ،جو کہ شرعاً مذموم و ممنوع ہے۔
رہی یہ بات کہ اغنیا اگر مرغیاں پالیں، تو اللہ عزوجل بستی والوں کی ہلاکت کا حکم ارشاد فرماتا ہے، تو اس سے مراد یہ ہے کہ جب امیر لوگ فقراء کی کمائی کے راستوں کو تنگ کردیں، ان کی معیشت میں دخل اندازی کریں ، وہ اس طرح کہ سستی چیزیں بڑے پیمانے پر خود خرید کر فقراء کی معیشت کو ٹھیس پہنچائیں ،تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ فقراء کی معیشت اور کمائی تعطل کا شکار ہوگی ،جس وجہ سے فقراء ہلاکت کے قریب ہوں گے۔
سننِ ابنِ ماجہ کی حدیثِ مبارک ہے:”حدثنا محمد بن إسماعيل قال : حد ثنا عثمان بن عبد الرحمن قال : حد ثنا على بن عروة ، عن المقبرى عن أبى هريرة رضى اللہ عنه قال : أمر رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الاغنياء باتخاذ الغنم ۔ وأمر الفقراء باتخاذ الدجاج ۔ وقال " عند اتخاذ الاغنياء الدجاج ، يأذن اللہ بهلاك القرى “ یعنی محمد بن اسماعیل نے عثمان بن عبدالرحمن سے،انہوں نے علی بن عروۃ سے ، انہوں نے مقبری سے اور انہوں نے حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےہمیں یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیروں کو بکریاں پالنے اور غریبوں کو مرغیاں پالنے کا حکم دیا۔ اور فرمایا کہ امیروں کے مرغیاں پالنے کی صورت میں اللہ عزوجل بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، کتاب التجارات، ج 02، ص 773، دار إحياء الكتب العربية)
مذکورہ بالا حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔ جیسا کہ’’الاسرار المرفوعۃ‘‘میں ہے: ”رواه ابن ماجه من حديث أبی هريرة أن النبی صلى اللہ عليه وسلم أمر الأغنياء باتخاذ الغنم وأمر الفقراء باتخاذ الدجاج وقال عند اتخاذ الأغنياء الدجاج يأذن اللہ بهلاك القرى قال الدميري وفی إسناده على بن عروة الدمشقی قال ابن حبان كان يضع الحديث أقول والظاهر أن الحديث ضعيف لا موضوع “ ترجمہ: امام ابن ماجہ علیہ الرحمۃ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی (حدیث کا مفہوم ماقبل گزرچکا) ۔ علامہ دمیری علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند میں علی بن عروۃ دمشقی راوی ہے، اس سے متعلق امام ابن حبان علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ یہ حدیث گھڑ کر بیان کرتا تھا۔میں کہتا ہوں کہ ظاہر یہی ہے کہ حدیث ضعیف ہے، موضوع نہیں ہے۔ (الأسرار المرفوعة فی الأخبار الموضوعة، ج 01، ص 470، دار الأمانة، بیروت)
’’المقاصد الحسنۃ‘‘ اور’’ کشف الخفاء ‘‘ میں ہے،والنظم للاول:’’لابن ماجه من حديث علی بن عروة عن المقبری، عن أبی هريرة، قال: أمر رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الأغنياء باتخاذ الغنم، وأمر الفقراء باتخاذ الدجاج، وقال: عند اتخاذ الأغنياء الدجاج يأذن اللہ تعالى بهلاك القرى۔وھو ضعیف“ ترجمہ: ابن ماجہ علیہ الرحمۃ نےعلی بن عروہ سے اُس نے مقبری سے اُس نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی اور وہ حدیث ضعیف ہے۔ (حدیث کا مفہوم ماقبل گزرچکا) ۔ (المقاصد الحسنة، ص 285، دار الكتاب العربي، بيروت) (كشف الخفاء، حرف الجیم، ج 01، ص 334، مطبوعہ قاھرۃ)
علامہ محمد بن عبد الھادی سندھی علیہ الرحمۃ مذکورہ بالا حدیث کے تحت ’’ حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجہ ‘‘میں ارشاد فرماتے ہیں: ”قولہ: (یاذن اللہ) ای:یرید ھلاک اھلھا حیث ضیقوا علی الفقراء مسالک الرزق و قطعوا علیھم الانتفاع بالدجاج، فان الاغنیاء اذا اتخذتھا تقل حاجتھم الی الشراء فینقطع انتفاع الفقراء بالدجاج “ ترجمہ: قولہ: (یاذن اللہ) یعنی اللہ عزوجل بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے ، اس طور پر کہ امیروں نے فقراء پر رزق کے دروازے تنگ کردیے ہیں اور مرغیوں کے ذریعے انہیں حاصل ہونے والے نفع کو بند کردیا ہے، کیونکہ اغنیاء جب مرغیاں پالنا شروع کریں گے، تو ان مرغیوں کی خریداری کی طرف غریب لوگوں کی رسائی کم ہوجائے گی ،جس سے غریبوں کو مرغیوں سے حاصل ہونے والا نفع منقطع ہوجائے گا ۔“ (حاشية السندی على سنن ابن ماجه، کتاب التجارات، ج 02، ص 48، دار الجيل ، بيروت)
ملا علی قاری علیہ الرحمۃ ’’مرقاۃ المفاتیح ‘‘ میں مذکورہ بالا حدیثِ مبارک کے تحت ارشاد فرماتے ہیں:”قال عبد اللطيف البغدادی: إنما أمر الأغنياء باتخاذ الغنم، والفقراء باتخاذ الدجاج، لأنه أمر كل قوم بحسب مقدرتهم وما تصل إليه قوتهم، والقصد فی تلك كله أن لا يقعد الناس عن الكسب وإنماء المال وعمارة الدنيا، وأن لا يدعوا التسبب، فإن ذلك يوجب التعفف والقناعة، وربما أدى إلى الغنى والثروة، ونبذ ذلك والإعراض عنه يوجب الحاجة والمسألة للناس والتكفف منهم، وذلك مذموم شرعا، وأن الأغنياء إذا ضيقوا على الفقراء فی مكاسبهم وخالطوهم في معايشهم تعطل الفقراء، وفی ذلك هلاك القرى“ ترجمہ: ”علامہ عبد الطیف بغدادی علیہ الرحمۃنے فرمایا کہ یہاں حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اغنیاء کو بکریاں پالنے اور فقراء کو مرغیاں پالنے کا حکم دیا، کیونکہ اس میں ہر قوم کے لیے اُس کی حیثیت اور طاقت و قوت کے مطابق کمائی کرنے کا حکم ہے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ کمائی کا ذریعہ اختیار کرنے، مال کو بڑھانے، دنیا کو تعمیر کرنے سے رک نہ جائیں اور کوشش کرنا نہ چھوڑیں کہ یہ امور قناعت وبےنیازی کی طرف لے جاتے ہیں،بلکہ بعض اوقات تو اس سے غناء اور مالداری بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ ہاں! اگر کمائی کا ذریعہ اختیار کرنے کو چھوڑدیا جائے، اس سے اعراض برتا جائے، تو یہ چیز فقیری، لوگوں سے سوال کرنے اور ان سے بھیک مانگنے کو پیدا کرتی ہے، حالانکہ شرعاً یہ امور مذموم ہیں۔ اغنیاء جب فقراء کی کمائی کے راستوں کو تنگ کردیں، ان کی معیشت میں دخل اندازی کریں ،تو فقراء کی معیشت اور کمائی تعطل کا شکار ہوگی، نتیجۃً بستی والے ہلاک ہوجائیں گے۔ “(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، کتاب الصید و الذبائح، ج 07، ص 2665، دار الفكر، بيروت، لبنان)
مذکورہ بالا حدیثِ مبارک کے تحت’’تیسیر بشرح الجامع الصغیر ‘‘،’’ فیض القدیر ‘‘ میں ہے، والنظؐم للاول :’’(عند اتخاذ الاغنیاء الدجاج) أی افتنائهم إيّاه (يأْذن تعالى اللہ بهلاك الْقرى) أی يكون ذلك عَلامَة على قرب أهلاكها قَالَ الْمُوفق الْبَغْدَادِيّ أَمر كلا فِی الْكسْب بِحَسب مقدرتهم لِأَن بِهِ عمَارَة الدُّنْيَا وَحُصُول التعفف وَمعنى الحَدِيث أَن الْأَغْنِيَاء إِذا ضيقوا على الْفُقَرَاء فِی مكاسبهم وخالطوهم فِی مَعَايشهمْ تعطل حَال الْفُقَرَاء وَمن ذَلِك هَلَاك الْقرى وبوارها ‘‘یعنی:ان مرغیوں کو کمائی کا ذریعہ بنانے کی صورت میں امیروں کا یہ فعل غریبوں کو ہلاک کرنے کی علامت و پہچان ہوگا ۔ موفق بغدادی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ اس میں ہر قوم کے لیے اُس کی حیثیت اور طاقت و قوت کے مطابق کمائی کرنے کا حکم ہے کہ اس سے دنیا کی تعمیر ہوتی ہے اور بے نیازی حاصل ہوتی ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اغنیاء جب فقراء کی کمائی کے راستوں کو تنگ کردیں، ان کی معیشت میں دخل اندازی کریں،تو فقراء کی معیشت اور کمائی تعطل کا شکار ہوگی نتیجۃً بستی والے ہلاک ہوجائیں گے۔ “(التيسير بشرح الجامع الصغير، ج 02، ص 149، مطبوعہ ریاض) (فيض القدير شرح الجامع الصغير، حرف العین، ج 04، ص 364، مطبوعہ مصر)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟