Kya Bimari Ur Kar Dosre Ko Lag Jati Hai ?

حدیث پاک کے الفاظ” عدویٰ،طیرۃ،ھامّہ“ سے کیا مراد ہے؟

مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-94

تاریخ اجراء: 16 جمادی الاولٰی 1443 ھ/ 21 دسمبر2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حدیث پاک میں جو فرمایا گیا کہ ”عدویٰ،طیرۃ،ھامہ کوئی شے نہیں“ یہاں عدویٰ ، طیرۃاور ھامہ سے کیا مراد ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (عدوی کوئی چیز نہیں یعنی بیماری ازخود اڑ کر نہیں لگتی) اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ بیماریوں میں عقل و ہوش ہے جو بیمار کے پاس بیٹھے اسے بھی اس مریض کی بیماری لگ جاتی ہے وہ پاس بیٹھنے والے کو جانتی پہچانتی ہے یہاں اسی عقیدے کی تردید ہے۔اس معنی سے مرض کا اڑ کر لگنا باطل ہے مگر یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بیمار کے پاس کی ہوا متعفن ہو اور جس کے جسم میں اس بیماری کا مادہ ہو، وہ اس تعفن سے اثر لے کر بیمار ہوجائے، اس معنی سے متعدی ہوسکتی ہے۔اس بناء پر فرمایا گیا کہ جذامی سے بھاگو لہذا یہ حدیث ان احادیث کے خلاف نہیں۔غرض یہ کہ عدوی یا تعدِیَہ اور چیز ہے ،کسی بیمار کے پاس بیٹھنے سے بیمار ہوجانا کچھ اور چیز ہے۔

   (طیرہ  کوئی چیز نہیں )  حدیث پاک میں طیرہ  سے مراد بد فالی لینا ہے ، خواہ  پرندے  سے ہو یا  کسی اور چیز سے ،اہل عرب جب کسی کام کو جاتے توکسی بیٹھے ہوئے پرندے کو اڑاتے،اگردائیں جانب وہ پرندہ اڑ جاتا تو سمجھتے کہ کام میں کامیابی ہوگی اور اگر بائیں طرف اڑتا تو کہتے کہ ناکامی ہوگی ،پھر اس کام کو کرتے ہی نہیں تھے۔ اس  کی حدیث پاک میں  ممانعت کی گئی ہے ،  کہ اس طرح کی  بد شگونی اور بد فالی کسی چیز سے نہ لی جائے ۔

   (ہامَّہ کوئی چیز نہیں )ہامَّہ الو کو کہتے ہیں ، اہل عرب کا خیال  تھا کہ میت کی گلی ہڈیاں الو بن  کر آجاتی  ہیں اور الو جہاں بول جائے وہاں  ویرانہ ہوجاتا  ہے ، یہ عقیدہ  غلط  ہے،  الو سے بدفالی لی جاتی  تھی ، لہذا  حدیث پاک میں اس کی نفی کی گئی کہ الو کوئی چیز نہیں  یعنی  اس  سے بد فالی  نہیں لی جائے۔(ماخوذ از مرأۃ المناجیح، جلد6، صفحہ193،194،مطبوعہ لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم