مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Fsd-8394
تاریخ اجراء:18ذو الحجۃ الحرام 1444ھ/07جولائی 2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے
بارے میں کہ کیا یہ حدیث ہے؟’’جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی ، تحقیق اس نے کفر
کیا۔‘‘ اگر یہ حدیث ہے،
تو اس میں کفرسے
کیا مراد ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں
بیان کردہ روایت حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ جان بوجھ کر نماز ترک کرنے والا حقیقت
میں کافر نہیں ،بلکہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ہے۔اس حدیث پاک اور اسی طرح دوسری احادیث
جن میں بے نمازی کو کافر کہا گیا ہے،ان کی
علمائے کرام اور محدثین نے درج ذیل تشریحات بیان کی ہیں :
(1) بے نمازی کو زجر وتوبیخ کی وجہ
سے کافر کہا گیا
۔
(2) نماز چھوڑنے والا عمل کافروں جیسا ہے کہ وہ بھی نماز نہیں پڑھتے ۔
(3) نماز کو ترک کرنا بے نمازی کو کفر تک پہنچا دے گا۔
(4)نماز چھوڑنے کو حلال
سمجھ کر
ترک کرتا ہے، یہ حقیقت میں کفر
ہے۔
(5)کفر
کی سزا کا مستحق ہے۔
(6)نما ز کی فرضیت کا منکر ہے۔یہ حقیقت
میں کفر ہے۔
(7) بے نمازی پر کفر کا خوف
ہے۔
(8) کفر
سے کافر ہونے والا معنیٰ مراد
نہیں ،بلکہ کفران
ِنعمت اور ناشکری ہے۔
مجمع
الزوائد میں ہے :”عن أنس بن
مالك قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:من ترك
الصلاة متعمدا فقد كفر جهارا“ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے جان بوجھ کر
نماز ترک کی، تحقیق
اس نے اعلانیہ کفر کیا۔(مجمع الزوائد ،
جلد 2،صفحہ 13، مطبوعہ دارالكتب
العلميہ)
نماز کو ترک کرنے والا کافر نہیں،جیسا کہ ارشاد الساری میں ہے: ”وليس المراد أن
تركه لذلك مخرج له من دين الإسلام“ترجمہ:
یہ مراد نہیں ہے کہ اس حدیث
کی وجہ سے نماز کو چھوڑنا ، بے نمازی کو
اسلام سے خارج کر دے گا
۔(إرشاد الساری
لشرح صحيح البخاری، جلد 2،صفحہ 442، مطبوعہ دارالكتب العلميہ)
امامِ اہلِ سُنَّت ، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”اور اس
طرف(یعنی تارک نماز کافر
نہیں) بحمداللہ نصوص شرعیہ
سے وہ دلائل ہیں جن میں اصلاً تاویل
کو گنجائش نہیں۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد5،صفحہ105
،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
بے نمازی کو زجر وتوبیخ کے لیے کافر
قرار دیا گیا،جیساکہ شارِح بخاری،
علامہ بدرالدین عینی
رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:” إنما هو توبيخ لفاعله وتحذير له من الكفر أي
سيؤديه ذلك إليه إذا تهاون بالصلاة“ترجمہ: بے شک حدیث ِ پاک میں بے نمازی کو تنبیہ کرنے
اور کفر سے ڈرانے کے
لیے کافر
کہا گیا ہے یعنی نماز چھوڑنا، اسے کفر تک پہنچا دے گا ،جبکہ وہ نماز کو ہلکا جانتا
ہو۔(عمدۃ القاری،
جلد 6،صفحہ 94، مطبوعہ دارالكتب
العلميہ)
نماز کو ترک
کرنا، بے نمازی
کو کفر تک پہنچا دے گا ،جیساکہ علامہ عبد
الرؤف مناوی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1031ھ) لکھتے ہیں:”قارب ان يكفر فان تركها جاحدا لوجوبها كفر حقيقة “ ترجمہ:قریب ہے کہ( بے نمازی
)کفر میں پڑ جائے ،پس اگر اس نے نماز کے وجوب
کا انکار کرتے ہوئے،نماز کو چھوڑا ،تواس نے حقیقت
میں کفر اختیار کیا۔(التیسیر شرح الجامع
الصغیر ، جلد2،صفحہ409،مطبوعہ مکتبۃ
الامام الشافعی، ریاض)
نماز چھوڑنے والا عمل
کافروں جیسا ہے کہ وہ
بھی نماز نہیں پڑھتے ،جیساکہ فيض القدير میں ہے:” قارب أن ينخلع عن
الإيمان بسقوط عماده كما يقال لمن قارب البلد إنه بلغها أو فعل فعل الكفار وتشبه بهم لأنهم لا يصلون“ترجمہ : قریب ہے
کہ نماز چھوڑنے
والا شخص دین کے ستون نماز کو گرانے کے سبب ایمان سے
خارج ہو جائے ،جیساکہ جب کوئی
شخص شہر کے قریب
پہنچ جائے ،تو اس کے متعلق
یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شہر میں پہنچ گیا ،یا پھر کفر
سے مراد یہ ہے کہ نماز چھوڑنے والے نے کافروں کے عمل
جیسا عمل
کیا اوران سے مشابہت
اختیار کی ،کیونکہ
کافر بھی
نماز نہیں پڑھتے۔( فيض القدير شرح الجامع الصغير ، جلد6،صفحہ 102،مطبوعہ
المكتبة التجارية الكبرى ، مصر)
بے نمازی نماز چھوڑنے کو حلال سمجھ کر ترک کرتا ہے ،جیساکہ امام شرف الدین نَوَوِی
رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:676ھ/1277ء) لکھتے ہیں:” أنه محمول على المستحل، أو على أنه قد يؤول به
إلى الكفر أو أن فعله فعل الكفار“ترجمہ: نماز چھوڑنے کو
حلال جان کر ترک
کرنے پر محمول ہے ، یا یہ مراد ہے کہ یہ عمل اسے کفر
تک پہنچا
دے گا ،یا پھر اس نے کفار کے عمل جیسا عمل کیا ہے ۔( المنهاج مع الصحیح لمسلم ،جلد 2، صفحه 71،مطبوعه دار إحياء التراث
العربي ، بيروت)
بے نمازی کفر کی سزا کا مستحق ہے،نما ز کی فرضیت کا منکر ہے،بے نمازی پر کفر کا خوف ہےاور کفر سے مراد کفران نعمت اور ناشکری ہے،جیساکہ علامہ علی قاری
حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:”من ترک الصلاۃ
متعمداً فقد کفرای استحق عقوبۃ
الکفر فإنه فسر بأنه
قارب الكفر أو شابه عمل الكفرة أو يخشى عليه الكفر أو المراد بالكفر الكفران أو
محمول على ما إذا استحل تركه أو نفى فرضيته أو على الزجر الشديد والتهديد والوعيد“ترجمہ:جس نے نماز کو ترک
کیا ،تحقیق اس نے کفر
کیا یعنی وہ بےنمازی کفر کی سزا کا مستحق ہوا، اس
حدیث کی یہ تشریح
بھی کی گئی ہے
کہ (بے نمازی )کفر کے قریب ہے ،اس کا یہ عمل کافروں والا عمل ہے ،(بے نمازی)
پر کفر کا خوف ہے،حدیث
پاک میں کفر سے کافر ہونے والا معنی مراد
نہیں ،بلکہ نا شکری والا(لغوی معنی) مراد ہے،حدیث
کا مرادی
معنی یہ
ہے کہ وہ نماز کےترک کو حلال جانتا ہو،نماز
کی فرضیت کا انکار
کرتا ہو،یاحدیث ڈرانے،ڈانٹنےاور وعید پر
محمول ہو گی۔(مرقاۃ
المفاتیح، جلد7،صفحہ5، مطبوعہ
کوئٹہ )
مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1391ھ/1971ء)لکھتےہیں:”اس حدیث
کا مطلب یہ ہے کہ بے نمازی قریب کفر ہے یا اس پر کفر پر مرنے کا اندیشہ ہے یا ترکِ
نماز سے مراد نماز کا انکار ہے یعنی نماز
کا منکر کافر ہے۔“(مراٰۃ المناجیح، جلد1، صفحہ353، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ ، گجرات)
امامِ اہلِ سُنَّت،امام اَحْمدرضاخانرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ
وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”اور اس طرف (یعنی تارک
نماز کافر نہیں) بحمداللہ
نصوص شرعیہ سے وہ دلائل ہیں جن میں
اصلاً تاویل کو گنجائش
نہیں، بخلاف دلائل مذہب اول(یعنی تارک نماز کافر ہے) کہ اپنے نظائر کثیرہ کی طرح استحلال واستخفاف وجحود وکفران وفعل مثل فعل کفار وغیرہا تاویلات کو اچھی طرح جگہ دے رہے ہیں
یعنی فرضیتِ نماز کا انکار کرے یا اُسے ہلکا اور بے قدر جانے یا اُس
کا ترک حلال سمجھے، تو کافر ہے یا یہ
کہ ترکِ نماز سخت کفرانِ
نعمت وناشکری ہے۔”کماقال سیدنا
سلیمٰن علیہ الصلاۃ
والسلام لیبلونی ءاشکرام
اکفر “ جیسا کہ سیدنا سلیمٰن علیہ السلام نے فرمایا
”تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزار بنتا ہوں یا ناشکرا“یایہ کہ اُس نے کافروں
کا سا کام کیا ” الی غیر ذلک
مماعرف فی موضعہ ومن الجادۃ المعروفۃ ردالمحتمل الی المحکم لاعکسہ کمالایخفی
فیجب القول بالاسلام“اس کے علاوہ اور بھی توجیہات
ہیں جن کی تفصیل ان کے مقام پر ملے گی، اور معروف راستہ یہی ہے کہ محتمل کو محکم
کی طرف لوٹایا جائے،
نہ کہ اس کا اُلٹ، جیسا
کہ ظاہر ہے، اس لیے اسلام کا ہی قول کرنا پڑے گا۔ (فتاویٰ
رضویہ، جلد5،صفحہ105-106،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟