مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-8192
تاریخ اجراء: 26 جمادی الآخر1444ھ/19 جنوری 2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلےکے بارے میں کہ ”سورۃ طٰہ “کی آیت نمبر دس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’جب اس نے ایک آگ دیکھی،تو اپنی اہلیہ سے فرمایا: ٹھہرو، بیشک میں نے ایک آگ دیکھی ہے ،شاید میں تمہارے پاس اس میں سے کوئی چنگاری لے آؤں یا آگ کے پاس کوئی راستہ بتانے والا پاؤں ۔‘‘(پ16، طٰہ:10) یہاں سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام نےاپنی اہلیہ کو جمع کے صیغہ سے خطاب کیا، جب کہ وہ اکیلی تھیں، اِس کی وجہ کیا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام نے ”مَدْیَن“سے ”مصر“واپسی پر اپنی اہلیہ کو ”جمع“ کے صیغے سے خطاب کیوں فرمایا، مفسرین کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہم اور ”علوم البلاغۃ“ کے ماہرین نے اِس کی وجوہات کو بیان فرمایا ہے۔ ذیل میں بالترتیب وجوہات اور دلائل ملاحظہ کیجیے۔
(1)مخاطَب کے مفرد ہونے کے باوجود اُس کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرنے کا مقصد اُس کی تعظیم وتوقیر یا متکلم کا سامنے والے کے لیے جمع کا صیغہ بول کر خود کے لیے اظہارِ تواضع کرنا ہوتا ہے، جیساکہ اردو میں لفظ ”آپ“ جمع اور ”تم“ واحد کے لیے مستعمل ہے، مگر جب مخاطَب واحد کی تعظیم وتوقیر یا اپنی تواضع مقصود ہو تو مخاطَب کے مفرد ہونے کے باوجود جمع کے لیے مستعمل لفظِ”آپ“ استعمال کرتے ہیں، چنانچہ اِسی طرح قرآن وحدیث اور پھر اہلِ عرب کے کلام میں اِس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ جہاں متکلم اپنے لیے یا مخاطب کے لیے تعظیم وتوقیر کے پیشِ نظر جمع کا صیغہ استعمال کرتا ہے اور یہ اُسلوبِ کلام معمولی سی زبان شناسی رکھنے والے پر ہرگز مخفی نہیں۔
صاحبِ ترجیح، علامہ احمد بن سلیمان بن کمال پاشا حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وصال: 940ھ/1534ء)نے اپنی کتاب ”تلوین الخطاب“ میں اِس اُسلوبِ کلام پر تفصیلی بحث فرمائی، نیز علامہ سعد الدین تفتازانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بحث نقل کی اور اُس پر نقد وارِد فرمایا اور بالآخر یہ ثابت کیا کہ قدیم اہلِ عرب میں واحد متکلم، مخاطب اور غائب، سب کے لیے جمع کا صیغہ استعمال ہونا ثابت ہے اور اُن کا مقصد تعظیم وتوقیر ہوتا تھا، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:’’قال الفاضل التفتازاني في شرح التلخيص ”وقد كثر في الواحد من المتكلم لفظ الجمع تعظيما له لعدهم المعظم كالجماعة، ولم يجيء ذلك للغائب والمخاطب في الكلام القديم، وإنما هو استعمال المولدين كقوله:بأي نواحي الأرض أبغي وصالكم وأنتم ملوك ما لمقصدكم نحو“ تعظيما للمخاطب وتواضعا من المتكلم وفيه نظر؛ لأنه قد جاء ذلك للغائب والمخاطب أيضا في الكلام القديم‘‘ترجمہ:علامہ فاضِل تفتازانی نے ”تلخیص المفتاح“ کی شرح میں ارشاد فرمایا:واحد متکلم کا اپنے لیے جمع کا صیغہ استعمال کثرت سے ہے، کیونکہ لوگ اُسے ایک جماعت کی مانند تنہا کو معظم ومحترم مانتے ہوتے ہیں، البتہ قدیم اہلِ عرب کے کلام میں غائب واحد یا مخاطب واحد کے لیے یوں جمع کا صیغہ استعمال ہونا وارِد نہیں، بلکہ اب اگر کوئی کرتا بھی ہے تو یہ صرف عرب میں پرورش پانے والے عجمی لوگوں کا استعمال اور اُن کی اختراع ہے، جیسا کہ کسی کاشعر:’’ بأي نواحي الأرض أبغي وصالكم وأنتم ملوك ما لمقصدكم نحو‘‘(یہاں جمع کے صیغے کا استعمال) مخاطب کی تعظیم اور متکلم کے اپنے لیے اظہارِ تواضع کی وجہ سے ہے۔ (میں علامہ ابنِ کمال پاشا رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کہتا ہوں) کہ علامہ تفتازانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے اِس دعویٰ میں نظر واعتراض ہے، کیونکہ قدیم اہلِ عرب میں (واحد متکلم کی طرح ) غائب اور مخاطب واحد کےلیے بھی جمع کے صیغے کا استعمال وارِد ہے۔(تلوین الخطاب، صفحہ356، مطبوعہ المدینۃ المنورہ)
علامہ سعد الدین تفتازانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ]وِصال:791ھ/1388ء) کی نقل کردہ بحث ”تلخیص المفتاح“ کی شرح ”المطوَّل“ میں موجود ہے۔
اوپر تفصیلی کلام سے معلوم ہو چکا کہ مخصوص مواقع پر جمع کے صیغے کا استعمال فصاحت وبلاغت پر مشتمل اُسلوبِ گفتگو ہے، چنانچہ حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کا کلام بھی اُسی فصاحت کے زیور سے آراستہ تھا،چنانچہ شہاب الدین علامہ محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1270ھ/ 1853ء) لکھتےہیں:’’ :﴿فَقَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا﴾ خطابا من موسى عليه السلام لامرأته ولعل اعتبار التذكير هنا أدخل في التعظيم‘‘ ترجمہ:حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام نے اپنی اہلیہ سے فرمایا:﴿ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا﴾ شایدیہاں مذکر کے صیغہ کو استعمال کرنا زیادہ تعظیمی اُسلوب پر مشتمل ہے۔(تفسیر روح المعانی،جلد11، صفحہ 194، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
(2)بسا اوقات انسان بتقاضائے حَیا صاف لفظوں میں عورت کا نام یا اُس کے لیے متعین مؤنث کی ضمیر استعمال نہیں کرتا، بلکہ جمع مذکر کا صیغہ استعمال کرتا ہے اور فنِ بلاغت کی رُو سے اِس اسلوب کا شمار ”مُحَسِّنات“ میں ہوتا ہے، چنانچہ بلاغت کی مشہور کتاب ” تلخيص المفتاح “ کی شرح ”عروس الأفراح “ میں علامہ بہاء الدین ابو حامِد سبکی (وِصال:773ھ/1371ء) نے لکھا:’’ربما خوطبت المرأة الواحدة بخطاب الجماعة الذكور، يقول الرجل عن أهله: فعلوا كذا، مبالغة فى سترها حتى لا ينطق بالضمير الموضوع لها، ومنه قوله تعالى حكاية عن موسى عليه الصلاة والسلام﴿فَقَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا﴾ ترجمہ:بعض اوقات واحد مؤنث کو جمع مذکر کی ضمیر سے خطاب کیا جاتا ہے، جیسا کہ کوئی مرد اپنی بیوی کے متعلق کہتا ہے:اُنہوں نے ایسا کیا۔ اِس انداز کا مقصد پردہ داری میں مبالغہ ہوتا ہے، چنانچہ کلام کرنے والا متعین وموضوع لہ ضمیر استعمال نہیں کرتا۔ اِسی اسلوب کی مثال اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان بھی ہے، کہ جو حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے متعلق حکایت کیا گیا ہے۔ ﴿فَقَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا﴾۔( عروس الأفراح في شرح تلخيص المفتاح،جلد 01، صفحہ 522، مطبوعۃ المكتبة العصريہ، بیروت)
ادیب ومؤرِّخ علامہ عبدالقادر بن عمر بغدادی (وِصال:1093ھ/1682ء)نے اپنی کتاب ”خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب “ میں بھی حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے صیغہِ جمع استعمال فرمانے کو اِسی ”مبالغۃ فی الستر“ کا مُسبَّب قرار دیا، چنانچہ لکھا:’’قد تخاطب المرأة بخطاب جماعة الذكور مبالغة في سترها ومنه قوله تعالى ﴿فَقَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا﴾۔ترجمہ ہو چکا۔(خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب، جلد01، صفحہ 396، مطبوعہ مصر)
(3)اہلِ عرب الفاظ کی معنوی رعایت کے پیشِ نظر مذکر کا صیغہ استعمال کرتے ہیں اور اِس اسلوب پر وہ عام گفتگو کرتے ہیں، چنانچہ لفظِ ”اھل“ معنوی اعتبار سے جمع مذکر ہے، لہذا اِس کی رعایت کرتے ہوئے جمع مذکر کا صیغہ یا ضمیر استعمال کرتے ہیں، چنانچہ اصل مدعا سے ہٹ کر دوسری قرآنی مثال یہ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَالُوْۤا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِ اِنَّهٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ترجمہ کنزالعرفان:فرشتوں نے کہا: کیا تم اللہ کے کام پر تعجب کرتی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں ۔ بیشک وہی سب خوبیوں والا، عزت والا ہے۔(پ12، ھود:73)
یہاں محل استدلال ” عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِ “ ہے، کہ ” اَهْل “ سے ماقبل ”کم“ ضمیر ِجمع مذکر استعمال ہوئی، جوکہ ” اَهْل “ کی معنوی رعایت کے پیشِ نظر ہے۔ اِس استدلال کو روح المعانی میں یوں بیان کیا گیا:أورد ضمير جمع المذكر في عنكم ويطهركم رعاية للفظ الأهل والعرب كثيرا ما يستعملون صيغ المذكر في مثل ذلك رعاية للفظ وهذا كقوله تعالى خطابا لسارة: امرأة الخليل عليهما السلام” قَالُوْۤا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِ اِنَّهٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ترجمہِ آیت: فرشتوں نے کہا: کیا تم اللہ کے کام پر تعجب کرتی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں ۔ بیشک وہی سب خوبیوں والا، عزت والا ہے۔(تفسیر روح المعانی،جلد11، صفحہ 194، مطبوعۃ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
اِسی علت کے پیشِ نظر ” امْكُثُوْۤا “ جمع کے ساتھ فرمایا گیا، کہ وہاں بھی ” لِأَهْلِهِ “ کی رعایت رکھی گئی۔اِسی استدلال سے علامہ آلوسی رحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ” امْكُثُوْۤا “ کے بطورِ جمع، درست اور فصیح وبلیغ ہونے کو ثابت کیا ہے۔ جزئیہ اوپر بیان کیا جا چکا۔
(4)اوپر والے جوابات سے ہَٹ کر ایک جواب یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ آپ کی اہلیہ تنہا نہ تھی، بلکہ آپ کے ساتھ کچھ بکریاں، خادم اور دو بچے بھی تھے، اِس وجہ سے حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام نے مخاطَب کے ایک سے زائد ہونے کی وجہ سے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا، چنانچہ ابو حیان علامہ محمد بن یوسف اندلسی ]وِصال:745ھ / 1344ء[ نے اِس استدلال کے لیے حضرت وھب بن منبہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول نقل کیا، چنانچہ آپ لکھتےہیں : قال وهب: ولد له ابن في الطريق... امكثوا أي أقيموا في مكانكم، وخاطب امرأته وولديه والخادم۔ترجمہ:حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے ہاں راستے میں بچہ پیدا ہوا۔” امْكُثُوْۤا “ کا معنی یہ ہے کہ تم سب یہیں اپنی جگہوں پرٹھہرو۔ حضرت موسیٰ نے یہ ” امْكُثُوْۤا “کا خطاب اپنی اہلیہ، دو بچوں اور خادم کو فرمایا تھا۔(البحر المحیط، جلد07، صفحہ 315، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
امام ابو زید ثعالبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ]وِصال:886ھ/1471ء[نے بھی راستے میں بچے کی پیدائش کا قول نقل کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:قال وهب بن منبّه: استأذن موسى شعيبا في الرجوع إلى والدته فأذن له فخرج بأهله، فولد له ابن في الطريق في ليلة شاتية مثلجة وقد جاد عن الطريق ۔واضح ہے۔(تفسير الثعلبي، جلد06، صفحہ 239،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟