Har Bimari Ka Ilaj Paida Kiya Gaya Tu Baaz Bimariyan Lailaj Kyun ?

ہر بیماری کا علاج پیدا کیا گیا تو بعض بیماریاں لا علاج کیوں؟

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1189

تاریخ اجراء: 04جمادی الثانی1445 ھ/18دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہر بیماری کے لئے اللہ تعالیٰ نے علاج پیدا کیا ہے، تو بعض بیماریاں لاعلاج کیوں قرار پاتی ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بڑھاپے کے علاوہ ہر مرض کی دوا اور علاج موجود ہے ، یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹرز اس علاج تک پہنچنے اور اس کو دریافت کرنے میں ناکام رہے ہوں۔ ممکن ہے آئندہ کسی وقت میں اس بیماری کا علاج بھی دریافت ہو جائے جس کو ڈاکٹرز آج تک لا علاج کہتے آئے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آج سے 100 سال پہلے تک بہت سی بیماریوں کو لا علاج سمجھا اور کہا جاتا تھا مگر فی زمانہ ان میں سے اکثر بیماریوں کا علاج دریافت ہو چکا ہے ۔ بہر حال کسی بیماری کو لا علاج کہنا ڈاکٹرز کی اپنی تحقیق اور علم کے اعتبار سے ہے ، اس کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔

   صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:” لِكُلِّ دَاءٍدَوَاءٌ “ یعنی ہربیماری کی دوا ہے۔(صحیح مُسلِم،صفحہ 721، حدیث 2204، مطبوعہ:ریاض)

   مواہب اللدنیہ اور اس کی شرح میں ہے:”(اما قولہ :لکل داء دواء، فیجوز ان یکون علی عمومہ حتی یتناول الادواء القاتلۃ)کالسم(والادواء التی لا یمکن طبیب معرفتھا ) لخروجھا عن قواعد علمہ (ویکون قد جعل اللہ لھا ادویۃ تبرئھا  ولکن طوی علمھا عن البشر ولم یجعل لھم الیھا سبیلا ) طریقا یھدیھم الیھا(لانہ لا علم للخلق الا ما علمھم اللہ تعالیٰ)۔۔۔۔۔۔وکثیر من المرضی یداوون  فلا یبرؤون فقال:انما ذلک لفقد العلم بحقیقۃ المداواۃ لا لفقد الدواء وھذا واضح“ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان :ہر بیماری کی دوا ہے، ممکن ہے کہ یہ اپنے عموم پر ہو یہاں تک کہ یہ ہلاک کردینے والی دواؤں جیسے زہرکو بھی شامل ہوگی اور ان دواؤں کو بھی شامل ہوگی کہ علمی قواعد سے خارج ہونے کی وجہ سے جن کی معرفت طبیب کے لئے ممکن نہیں اور اللہ پاک نے اس  بیماری کو دور کرنے کے لئے دوا پیدا کی ہو لیکن اس کا علم بشر سے پوشیدہ کر دیا ہو اور اس کی طرف کوئی ایسا راستہ نہ رکھا ہو جس سے وہ اس کی طرف راہ پائیں کیونکہ مخلوق کو اتنا ہی علم ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھایا۔۔۔ اور کثیر بیماریاں ایسی ہیں کہ طبیب علاج کرتے ہیں لیکن شفا نہیں ہوتی، تو فرمایا:یہ حقیقتِ علاج سے ناوقفیت کی بنا پر ہے ،اس وجہ سے نہیں کہ اس کی دوا نہیں پائی جاتی اور یہ بات واضح ہے۔(شرح الزرقانی علی المواھب، جلد 9،صفحہ 359،مطبوعہ:بیروت)

   سنن ترمذی اور سنن ابو داؤد میں ہے : حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ  وسلم کی بارگاہ میں عرض کی :” یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! افنتداوی ؟ قال : نعم ، یاعباد اللہ ! تداووا ، فان اللہ لم یضع داء الا وضع لہ شفاء غیر داء واحد الھرم“ یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم دوا کریں ؟ تو فرمایا: ہاں! اے اللہ کے بندو! دوا کرو ، کیونکہ اللہ نے کوئی بیماری نہیں پیدا فرمائی مگر اس کے لئے شفاء رکھی سوائے ایک بیماری بڑھاپے کے۔(سنن ابی داؤد ، جلد 4 ، صفحہ 192 ، حدیث 3855 ، بیروت)

   اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”بڑھاپے کو بیماری اس لیے فرمایا گیا کہ بڑھاپے کے بعد موت ہے جیسے بیماری کےبعد موت ہوتی ہے،نیز بڑھاپے میں بہت بیماریاں دبالیتی ہیں۔

   لطیفہ: ایک بوڑھے آدمی نے کسی طبیب سے کہا کہ میری نگاہ موٹی ہوگئی ہے طبیب نے کہا بڑھاپے کی وجہ سے،وہ بولا اونچا سننے لگا ہوں جواب ملا بڑھاپے کی وجہ سے،بولا کمر ٹیڑھی ہوگئی ہے کہا بڑھاپے کی وجہ سے، آخر میں بوڑھا بولا کہ جاہل طبیب تجھے بڑھاپے کے سوا کچھ نہیں آتا جواب ملا یہ بے موقع غصہ بھی بڑھاپے کی وجہ سے ہے۔ “(مراۃ المناجیح ، جلد6 ، صفحہ180 ، حسن پبلشرز ، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم