Hafte Ke Din Roza Rakhna Kis Hadees Mein Mana Kya Gaya Hai ?

 

ہفتے کےدن روزہ رکھنا کس حدیث میں منع کیا گیا ہے؟

مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1807

تاریخ اجراء:29ربیع الاول1446ھ/04اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیاہفتہ کے دن روزہ رکھنے سے کسی حدیث میں منع کیا گیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صرف ہفتے کے دن کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی یعنی ناپسندیدہ ہے کہ حدیث شریف میں ہفتے کے دن کا روزہ رکھنے سے ممانعت آئی ہےجس کی وجہ یہودیوں سے مشابہت ہے کہ وہ اگرچہ اس دن روزہ تو نہیں رکھتے، مگر اس کی تعظیم بہت کرتے ہیں۔

   واضح رہے کہ  اگر کسی ایسی تاریخ کو ہفتےکادن آگیا کہ اس تاریخ میں روزہ رکھنے کی حدیث میں فضیلت واردہوئی ہے مثلاًیومِ عرفہ (9ذوالحجّہ)، یومِ عاشورہ(10محرم الحرام) وغیرہ، تو  اس صورت میں تنہا ہفتے کا روزہ رکھنا بھی بلاکراہت جائز ہوگا، اس طرح اگر ہفتے کے ساتھ جمعہ کا یا اتوار کا بھی روزہ رکھ لیا، تو بھی کوئی کراہت نہیں۔

   حدیث شریف میں تنہا ہفتے کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے چنانچہ امام ترمذی علیہ الرحمہ ایک صحابیہ صماء بنتِ بسر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےارشاد فرمایا:’’لا تصوموا يوم السبت الا فيما افترض اللہ عليكم فان لم يجد احدكم الا لحاء عنبة او عود شجرة فليمضغہ قال ابو عيسى هذا حديث حسن ومعنى كراهته في هذا ان يخص الرجل يوم السبت بصيام لان اليهود تعظم يوم السبت ترجمہ:ہفتے کے دن کا روزہ نہ رکھو مگر وہ جو تم پر فرض کیا گیا ہو، اگر تم میں سے کوئی انگور کی چھال اور درخت کی ٹہنی کے علاوہ کچھ نہ پائے تو اسی کو چبا لے ۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن درجے کی ہے اور اس دن روزہ رکھنے کی کراہت سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی شخص ہفتے کے دن کو خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنے کے لئے مقرر کرلے کیونکہ یہودی اس دن کی تعظیم کرتے ہیں۔(سنن ترمذی،جلد1،صفحہ401، مطبوعہ کراچی،ملتقطاً)

   علامہ علیہ قاری رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث پاک  کی شرح میں فرماتےہیں:’’وما افترض يتناول المكتوب والمنذور وقضاء الفوائت وصوم الكفارة وفي معناه ما وافق سنة مؤكدة كعرفة وعاشوراء او وافق وَرَداً۔۔۔واتفق الجمھور علی ان ھذا النھی والنھی عن افراد الجمعۃ نھی تنزیہ لاتحریمیعنی حدیث شریف میں جوفرض روزوں کا استثناء کیا گیا تو اس میں فرض روزے،منت کے روزے، قضاروزے، کفارے کے روزے شامل ہیں اور اسی معنی میں وہ روزے بھی ہیں جن کی تاکید حدیث شریف میں آئی یاجن کے بارے میں فضیلت واردہوئی ہے جیساکہ عرفہ اور عاشورہ کا روزہ نیز جمہورعلمائے کرام کا اتفاق ہے کہ تنہا ہفتے اور تنہاجمعہ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت تنزیہی ہے،تحریمی نہیں۔(مرقاۃ المفاتیح،جلد4،صفحہ301، مطبوعہ ملتان،ملتقطاً)

   حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ مذکورہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :’’یعنی نفلی روزہ صرف ہفتہ کےدن نہ رکھو کیونکہ اس میں یہود سے مشابہت ہے کہ وہ اگرچہ اس دن روزہ تو نہیں رکھتے مگر اس کی تعظیم بہت ہی کرتے ہیں،تمہارے اس روزے میں ان سے اشتباہ ہوگا۔ جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ یہ ممانعت بھی تنزیہی ہے لہٰذا یہ حدیث ہفتہ کےدن روزے کی احادیث کے خلاف نہ ہوگی کہ وہ بیانِ جواز کے لئے ہیں اور یہ حدیث استحباب کے لئے،اگر  ہفتہ کے ساتھ اوردن کا بھی روزہ رکھ لیا جائے تو مشابہت نہ رہے گی نہ ممانعت،یہاں فرض سے مراد صرف شرعی فرض نہیں بلکہ بمعنی ضروری ہےلہٰذا رمضان، قضائے رمضان، نذر، کفارہ، عاشورے، گیارہویں، بارہویں وغیرہ متبرک تاریخوں کے روزے  اس دن میں رکھنا بلا کراہت جائز ہیں۔“ (مرآۃ المناجیح،جلد3،صفحہ192، ضیاء القرآن لاھور)

   فیضانِ رمضان میں ہے:’’صرف ہفتے کے دن کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی(یعنی ناپسندیدہ)ہے ہاں اگر کسی مخصوص تاریخ کوجمعہ یا ہفتہ آگیا تو تنہا جمعہ یا ہفتے کا روزہ رکھنے میں کراہت نہیں مثلاً15شعبان المعظّم،27رجب المرجّب وغیرہ۔“(فیضان رمضان،صفحہ379، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم