Hadees: Mein Ilm Ka Sehar Aur Abu Baker Is Ki Bunyad Hai Ki Tehqeeq

روایت"میں علم کاشہراورابوبکراس کی بنیادہے"کی تحقیق

مجیب: ابو احمد محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-866

تاریخ اجراء:       04ذیقعدۃالحرام1443 ھ/04جون2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کرامت شیر خدا میں ایک روایت لکھی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: میں علم کا شہر ہوں ابو بکر اس کی بنیاد ہے،عمر اس کی دیوار ہے، عثمان اس کی چھت ہے اور علی اس کا دروازہ ہے۔ مجھے کسی نے کہا ہے کہ یہ روایت موضوع ہے، آپ اس کے متعلق کیا کہتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حدیث مذکور یعنیأنا مدينة العلم وابوبکر اساسھاپر اجلہ محدثین نے فقط ضعیف ہونے کا حکم دیا ہے ۔ لہذایہ موضوع نہیں فقظ ضعیف ہے اورضعیف حدیث فضائل میں معتبرہوتی ہے جیساکہ اجلہ ائمہ محدثین نے اس کی صراحت فرمائی ہے ۔اس حدیث پاک کےحکم کے متعلق وضاحت درج ذیل ہے: (مفتی حسان صاحب دام ظلہ کے کالم سے ماخوذکچھ حصہ)

   حافظ ابن حجر ہیتمی مکی رحمہ اللہ تعالی علیہ سے اس حدیث کے حوالے سے سوال ہوا تو آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ارشاد فرمایا:” رواه صاحب مسند الفردوس وتبعه ابنه بلا سند عن ابن مسعود رضي الله عنه مرفوعا وهو حديث ضعيف“ ترجمہ:اس حدیث کو صاحب مسند الفردوس اور ان کے بیٹے نے ان کی تبعیت میں بلا سند حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے، اور یہ حدیث ضعیف ہے ۔( الفتاوی الحدیثية، صفحہ 192 ، دار الفکر، بیروت)

   حافظ نجم الدین محمد بن محمد الغزی رحمہ اللہ تعالی ، المتوفی ۱۰۶۱ھ اس  مضمون کی دیگر احادیث اور مذکورہ حدیث دیلمی کے حوالے سے نقل کرکے فرماتے ہیں :”كلها ضعيفة واهية “ یعنی یہ سب شدید ضعیف حدیثیں ہیں ۔(اتقان ما يحسن من الاخبار الدائر ۃ علی الالسن صفحه ۱۲۶ مطبوعہ الفاروق الحدیثۃ قاہرہ )

    اسی طرح علامہ شمس الدین سخاوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے یہ حدیث دیلمی کے حوالے سے ذکر کی ہے اور یہ ارشاد فرمایا کہ امام دیلمی اور ان کے بیٹے نے اس حدیث کو بلا سند روایت کیا ہے۔ نیز اس باب کی دیگر احادیث کو نقل کرکے ارشاد فرمایا:” وبالجملة فكلها ضعيفة وألفاظ أكثرها ركيكة وأحسنها حديث ابن عباس بل هو حسن“  خلاصہ یہ ہے کہ یہ تمام احادیث ضعیف اور ان کے الفاظ رکیک ہیں ، اور ان میں سب سے راجح حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث ہے بلکہ  وه حسن حدیث ہے۔( المقاصد الحسنۃصفحہ 170 دار الکتب العربی)

    علامہ محمد بن اسمعیل عجلونی رحمۃ اللہ تعالی علیہ مقاصد حسنہ کی عبارت نقل کرکے فرماتے ہیں : وقال النجم: كلها ضعيفة واهية‘‘  یعنی نجم الدين الغزي کہتے ہیں : یہ تمام ضعیف اور واہی ہیں ۔ ( کشف الخفاء ،جلد 1 ،صفحہ 236 ،رقم 618 ، مؤسسۃ الرسالۃ )

    محدث احناف حضرت علامہ علی بن سلطان المعروف ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی نے بھی  مسند الفردوس کے حوالے سے  اس حدیث کو مرقاۃ المفاتیح میں نقل فرما کر مقرر رکھا  ہے ۔ ( مرقاۃ المفاتیح ،جلد 10 ،صفحہ 470 ،مطبوعہ :ملتان )

   حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو مسندا ذکر کیا ہے ،  اس کے راوی  اسماعیل بن علی الواعظ پر سخت جروح موجود ہیں، لیکن خود اس کے حالات میں خاص اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی خطیب بغدادی کے حوالے سے لکھتے ہیں:  ثم قال شيخي أبو الفرج الإسفرايني ثم وجدت هذا الحديث بعد مدة في جزء على ما ذكره ابن المثنى فالله أعلم “ترجمہ: میرے شیخ ابو الفرج الاسفرائینی کہتے ہیں : پھر میں نے اس حدیث کو ایک مدت کے بعد ایک جزء میں اس طرح پایا جیسا کہ ابن المثنی نے ذکر کیاہے۔ (تاریخ دمشق، ج 9، ص20، دار الفکر، بیروت )

   اس معنی کی ايك اورحديث حافظ ابن عساكر رحمہ الله تعالی نے حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:” عن أنس بن مالك قال قال رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) أنا مدينة العلم وأبو بكر وعمر وعثمان سورها وعلي بابها فمن أراد العلم فليأت الباب “اسے روایت کرنے کے بعد ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ”منكر جدا إسنادا ومتنا“   یعنی یہ حدیث سند اور متن کے اعتبار سے سخت منکر ہے ۔ ( تاریخ مدینۃ دمشق جلد 45،صفحہ 321، دار الفکر، بیروت)

   اور اہل علم پر مخفی نہیں کہ حدیث منکر موضوع نہیں ہوا کرتی ۔

   ان اجلہ ائمہ کی تصریح سے یہ بات واضح ہے کہ یہ حدیث  ضعیف ہے ، موضوع ہرگز نہیں ۔                        

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم