Hadees Mein Hazrat Ibrahim Ko Baap Kehne Ki Wajah

حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو باپ کہنے کی وجہ

مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1000

تاریخ اجراء: 23ذوالحجۃالحرام1444 ھ/12جولائی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   حدیث میں فرمایا : قربانی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو باپ کہنے کی کیا وجہ ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں پوچھی گئی حدیث سنن ابن ماجہ کی حدیث  ہے،اور صرف حدیث میں ہی نہیں بلکہ قرآن پاک میں بھی ابراہیم علیہ السلام کے لئے (باپ) کا   لفظ استعمال کیا گیا ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا  ہے:” مِلَّةَ اَبِیْكُمْ اِبْرٰهِیْمَ ؕ “ترجمہ كنز الايمان:تمہارے باپ ابراہیم کا دین۔(سورۂ حج، آیت 78)

   سنن ابن ماجہ میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ علیہ نے سے روایت ہے:”قال أصحاب رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم: يا رسول اللہ ماهذه الأضاحي ؟ قال:  سنة أبيكم إبراهيم ۔ قالوا: فما لنا فيها  يا رسول اللہ؟قال: بكل شعرة حسنة۔ قالوا: فالصوف  يا رسول اللہ؟ قال: بكل شعرة من الصوف حسنة“یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا: یارسول اﷲ یہ قربانیاں کیاہیں؟ فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت۔عرض کیا کہ ان میں ہمیں کیا ملے گا؟فرمایا: ہربال کےعوض نیکی۔ عرض کیا کہ اون یارسول اﷲ؟ تو فرمایا: اون کے ہربال کےعوض نیکی۔(سنن ابن ماجہ، حدیث 3127، صفحہ 482،مطبوعہ:ریاض)

   تفسیر روح المعانی ،تفسیربیضاوی،تفسیر ابی سعود میں ہے:”إنما جعله أباهم لأنه أبو رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم وهو كالأب لأمته من حيث إنه سبب لحياتهم الأبدية ووجودهم على الوجه المعتد به في الآخرة أو لأن أكثر العرب كانوا من ذريته صلى اللہ عليه وسلم فغلبوا على غيرهم “یعنی ابراہیم علیہ السلام کو ان تمام کا باپ قرار دیا گیا،اس وجہ سے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہیں اور وہ اپنی امت کے باپ کی طرح ہے اس حیثیت سے کہ وہی ان کی حیاتِ ابدی اور آخرت میں معتد بہ طریقہ پر ان کے وجود کا سبب ہیں یا اس وجہ سے کہ اکثر عرب ابراہیم علیہ السلام کی ذریت سے ہیں ، تو ان کو دیگر پر غلبہ دے دیا گیا۔(تفسیر ابی السعود، الجزء السادس،صفحہ 122،دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ  نے معالم التنزیل  میں اس کی دو وجہیں بیان فرمائیں:” قيل: خاطب به العرب وهم كانوا من نسل إبراهيم. وقيل: خاطب به جميع المسلمين، وإبراهيم أب لهم، على معنى وجوب احترامه وحفظ حقه كما يجب احترام الأب “یعنی  اس کی ایک وجہ یہ ہے  کہ یہ خطاب اہل عرب سے ہے اور اہل عرب حضرت   ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں( لہٰذا  حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اہل عرب کا باپ کہنا درست ہے )۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ تمام مسلمانوں سے خطاب ہے اور ابراہیم علیہ السلام تمام مسلمانوں کے باپ ہیں اس معنی میں کہ جس طرح باپ کی تعظیم لازم ہے اسی طرح جناب خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام  کی تعظیم اور ان کے حق کی حفاظت واجب ہے۔(معالم التنزیل،جلد3،صفحہ355، دار احياء التراث العربی،بيروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم