Hadees Mein Allah Pak Ko Zamana Kehne Ka Kya Matlab Hai ?

حدیث میں اللہ پاک کو زمانہ کہنے کا کیا مطلب ہے ؟

مجیب: مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-1052

تاریخ اجراء: 17محرم الحرام1445 ھ/05اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   حدیث میں ہے کہ ”اللہ پاک فرماتا ہے لوگ  زمانہ کو برا کہتے ہیں حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں ‘‘ اس میں اللہ پاک کا اپنے آپ کو زمانہ کہنے سے کیا مقصود  ہے؟ کیونکہ زمانہ بدلتا ہے اور اللہ پاک تغییر سے پاک ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   درج بالا  حدیث شریف  میں قطعاً یہ مراد نہیں ہے کہ( العیاذ باللہ!)  اللہ پاک کی ذات ہی زمانہ (وقت) ہے بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اپنے آپ کو زمانہ کہنے سے  مراد یہ ہے کہ اس کا خالق  ، اس میں تصرف  کرنے والا  اور اس کا مؤثر میں ہوں اور بلا شک و شبہ کائنات  کی ہر چیز  میں متصرفِ حقیقی اللہ جل جلالہ ہی ہے۔ اورمراد یہ ہے کہ زمانہ میں تغیر وتبدل میرے حکم سے ہوتا ہے لہٰذا زمانہ کو برا نہ کہا جائے۔

   مشکوٰۃ المصابیح میں بحوالہ صحیحین حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:”قال اللہ تعالیٰ: یؤذیننی ابن آدم یسب الدھر وانا الدھربیدی الامر ، اقلب اللیل والنھار“یعنی اللہ پاک فرماتا ہے:ابنِ آدم مجھے ایذا دیتا ہے کہ زمانہ کو گالیاں دیتا ہے حالانکہ زمانہ تومیں ہوں ، میرے ہی دستِ قدرت میں تمام امور ہیں، میں دن رات کو پلٹتا ہوں۔(مشکوۃ المصابیح مع مرقاۃ المفاتیح، جلد1،صفحہ 171، حدیث 22،مطبوعہ: بیروت)

   اس حدیث پاک کے تحت مراۃ المناجیح میں ہے:”یہاں دہر(زمانہ) سے مراد مؤثر حقیقی اور مسبب الاسباب ہے ورنہ رب تعالیٰ کو دہر کہنا درست نہیں اور نہ دہر اللہ کا نام ہے۔“(مراۃ المناجیح، جلد1،صفحہ 44، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   اسی مضمون پر مشتمل حدیث شریف کی شرح بیان  کرتے  ہوئے حکیم الامت ، مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ” اسلام میں زمانہ کو مؤثر نہیں مانا گیا مؤثر اور متصرف اللہ تعالیٰ ہے ۔“(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 414، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم