مجیب: مفتی ابو
محمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Gul-2182
تاریخ اجراء: 12شعبان المعظم 1442ھ/27مارچ 2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و
مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک حدیث
پاک کا مفہوم ہے کہ اللہ پاک اس شخص کو تر و تازہ
رکھے جو حدیث سنے،اسے یاد رکھے اور اسے آگے
پہنچائے۔پوچھنا یہ ہے کہ اس حدیث پاک کی شرح کیا
ہے؟اور یہ بشارت دنیا میں
حاصل ہو گی یا آخرت میں؟شرعی رہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مختلف کتبِ حدیث میں یہ حدیث پاک
موجودہے کہ اللہ پاک اس شخص کو تروتازہ رکھے،جس نے حدیث پاک سُنی اور
یاد رکھی ا ور اسے آگے پہنچایا۔تروتازہ کے متعلق شارحین حدیث رحمھم اللہ تعالی نے
مختلف معانی بیان
کیے ہیں، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
حدیث پاک کے الفاظ تروتازہ کا ایک
معنی یہ ہے کہ اللہ پاک ایسے شخص کو دنیا میں اس
طرح تروتازہ رکھے گا کہ لوگوں کے درمیان اس شخص کو قدر و منزلت عطا کرے گا
اور آخرت میں نعمتوں سے نوازے گا۔
دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ
پاک اس کو حسن و جمال عطا فرمائے گایا اللہ پاک اس کو آخرت میں جنت
کی نعمتوں سے نوازے گا اور یہ ساری بشارتیں دنیا
اور آخرت دونوں میں عطا کی جائیں گی۔
لوگوں تک حدیث پاک پہنچانے والے کے متعلق مشکوۃ المصابیح
میں ہے:”عن ابن مسعود رضی
اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :نضر اللہ عبدا سمع
مقالتی فحفظھا و وعاھا و اداھا “ترجمہ:حضرت ابن مسعود
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک اس شخص کو تروتازہ رکھے، جس نے
میری حدیث کو سنااور اسے یاد رکھاا ور اس کا خیال رکھا
اور اس کو آگے پہنچایا ۔(مشکوۃ المصابیح، جلد1، حدیث 228، صفحہ 232، مطبوعہ
کراچی)
مذکورہ حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے ملا علی قاری
رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ المفاتیح میں فرماتے
ہیں:”المعنی خصہ اللہ
بالبھجۃ و السرور لما رزق بعلمہ و
معرفتہ من القدر و المنزلۃ
بین الناس فی الدنیاو نعمہ فی الاخرۃ حتی
یری علیہ رونق الرخاء و النعمۃ“ ترجمہ: اللہ پاک اس شخص کو جسے علم
و معرفت عطا کیا گیا، لوگوں کے درمیان قدر ومنزلت کے
ذریعے اور آخرت میں نعمتوں کے ذریعے ، خوشی اور
تروتازگی کے ساتھ خاص کر دے گا، یہاں تک کہ اس شخص کے اوپر نعمتوں اور
تروتازگی کی چمک دیکھی جائے گی۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد1،
صفحہ441،440، مطبوعہ کوئٹہ)
اسی طرح کی حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے فیض
القدیر میں علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:”معناہ:البسہ
النضرۃ و خلوص اللون:یعنی جملہ اللہ و زینہ او معناہ
:اوصلہ اللہ الی نضرۃ الجنۃ و ھی
نعیمھا۔۔۔و قیل معناہ :حسن اللہ وجھہ فی
الناس :ای جاھہ و قدرہ “ترجمہ:اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک اس شخص کو اچھا
رنگ اور تروتازگی کا لباس پہنائے گا۔یعنی اللہ پاک اس شخص
کو زیب وزینت اور حسن و جمال عطا کرے گا یا اس کا معنی
یہ ہے کہ اللہ پاک اس کو جنت کی تروتازگی یعنی
نعمتیں عطا کرے گا۔۔۔اوریہ معنی بھی
بیان کیا گیا ہے کہ اللہ پاک اس کے چہرے کو لوگوں میں
خوبصورت بنا دے گا، یعنی اس شخص کو لوگوں میں قدر و منزلت اور
جاہ و جلالت عطا فرمائے گا۔(فیض القدیر، جلد6، حدیث 9264، صفحہ 370، مطبوعہ
بیروت)
محقق علی الاطلاق، شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:”نضر، نضارت اصل میں چہرے کی
خوبصورتی اور روشنائی و تابانی کے لیے آتا
ہے۔یہاں اس سے شان اور مرتبے کی رفعت اور دنیا اور آخرت
میں سرور و رونق اور تازگی میں اضافہ مراد ہے۔“(اشعۃ اللمعات مترجم،جلد 1،
صفحہ503، مطبوعہ فرید بک سٹال)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:”یہ
حدیث تا قیامت محدثین کو شامل ہے یعنی اللہ
تعالی حافظ اور مبلغِ حدیث کو دنیا میں پھلا پھولا رکھے
اور آخرت میں اس کا چہرہ تروتازہ رکھے۔۔۔حضور کی
یہ دعا قبول ہے۔خدام حدیث بفضلہ تعالی دین و
دنیا میں شاد و آباد ہیں، جیسا کہ تجربہ بتا رہا
ہے۔حدیث کا ذکر کرنا، حفظ ہے ا ور یاد رکھنا بھول نہ جانا وعاء۔“
(مراۃ
المناجیح، جلد1، صفحہ200، مطبوعہ قادری پبلشرز، لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟