مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-2875
تاریخ اجراء: 06محرم الحرام1446 ھ/13جولائی2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا کوئی غیر عالم قرآن پاک
کے ترجمہ سے یا تفسیر سے خود مسئلے اخذ کر سکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی نہیں!
غیر عالم قرآن پاک کے ترجمہ سے
یا تفسیر سے خود ہی
مسئلے اخذ نہیں کر سکتا،اس کے لئے ایسا کرنا ہر گز جائز نہیں ہے ،غیر عالم تو
دور کی بات ہے، ہر عالم بھی یہ کام نہیں کر سکتا ؛اس لئے
کہ قرآن و سنت سے شرعی مسائل کا اخذ و استنباط خاص علمائے کرام کا کام ہے،اور اس کے لئے
اچھی خاصی
صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں ، جب ہر عالم اس کام کا اہل نہیں،تو غیر عالم کہاں سے اس بات کا
اہل ہوسکتا ہے؟لہذا غیر عالم پر
لازم ہے کہ وہ خود سے
ترجمہ یا تفسیر پڑھ کر مسائل اخذ نہ کرے بلکہ کسی
سنی صحیح العقیدہ عالمِ
دین سے اپنے ضروری مسائل
معلوم کر لے۔
جو
علم نہیں رکھتا،اس کے لئے حکم ہے کہ وہ اہل
علم سے پوچھ لے،جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:﴿فَسْئَـلُـوْۤا
اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ترجمہ کنز
العرفان: اے لوگو!اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں
سے پوچھو ۔ (القرآن، پارہ 14،سورۃ النحل،آیت:43)
اس
آیت مبارکہ کے تحت تفسیر روح المعانی میں ہے:” و استدل بھا ایضاً علی وجوب المراجعۃ
للعلماء فیما لا یعلم‘‘ترجمہ: اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیاہے کہ
جس چیز کا علم نہ ہو، اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے۔(تفسیر روح
المعانی ، سورۃ النحل، تحت الآیۃ: 43،ج 7،ص 387،دار الکتب
العلمیۃ،بیروت)
حديثِ پاک میں ہےکہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ” من قال في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار “ ترجمہ: جس نے بِغیر علم قرآن کی تفسیر کی ، اس نے اپنا
ٹھکانہ جہنم میں بنالیا ۔(سنن
الترمذی،رقم الحدیث 2951،ج 5،ص 199،مطبوعہ مصر)
خاتم
المحققین علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ شرح
عقود رسم المفتی میں فرماتے ہیں:” وقد رأیت فی فتاوی
العلامة ابن حجر سئل في شخص یقرأ ویطالع في الکتب الفقھیة بنفسہ
، ولم یکن لہ شیخ ویفتي ویعتمد علی مطالعتہ
فی الکتب ، فہل یجوز لہ ذلک أم لا، فأجاب بقولہ: لایجوز لہ
الإفتاء بوجہ من الوجوہ لانہ عامی جاھل لایدری مایقول بل
الذی یاخذ العلم عن المشائخ المعتبرین لایجوز لہ ان یفتی من کتاب و لا من کتابین
بل قال النووی رحمۃ اللہ علیہ ولا من عشرۃ “ ترجمہ : علامہ ابن حجر رحمۃ
اللہ علیہ کے فتاویٰ
میں، مَیں نے دیکھا کہ ایک ایسے شخص کے بارے
میں پوچھا گیا ، جو خود فقہی کتابیں پڑھتا ہے ،
لیکن اس کا کوئی استاذ نہیں ہے ، تو وہ اپنے مطالعہ پر اعتماد
کرتے ہوئے مسائل بتاتا ہے ، ایسا کرنا اس کے لیے جائز ہے یا
نہیں ؟تو جواب دیا :کسی ایک بھی وجہ سے اس کے لیے فتویٰ
دینا (مسئلہ بتانا) جائز نہیں ہے ۔کیونکہ وہ ایک
عام جاہل بندہ ہے ، اسے پتہ ہی نہیں ہوگا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے
، بلکہ جس نے معتبر مشائخ سے علم حاصل کیا ، اس کے لیے بھی
ایک دو کتابوں سے فتویٰ دینا جائز نہیں ہے ، بلکہ
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : دس کتابوں سے
بھی ( دیکھ کر فتویٰ دینا اس کے لیے جائز
نہیں ہے ۔)( شرح عقود رسم
المفتی ، صفحہ 17 ، مطبوعہ
کراچی )
بہار
شریعت میں ہے:”قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنے اور یاد
کرلینے سے یا احادیث کا ترجمہ اردو زبان میں پڑھ
لینے سے عام مسلمان احکام کی روح اور مسائل کی حقیقت تک
نہیں پہنچ سکتے۔ خلفائے راشدین کے زمانہ مسعودو مبارک میں
بھی مخصوص افراد صحابہ و تابعین میں سے ایسے تھے جن سے
مسائل کے احکام معلوم کرنے میں رجوع کیا جاتا تھا۔ ہر
صحابی یا ہر تابعی کو یہ مقام حاصل نہ تھا۔ا س
لئےاحکامِ شرعیہ کو حاصل کرنے میں اور دوسروں کو بتلانے میں
فقہی کتابوں کے مطالعے کے ساتھ صاحبِ فہم و اِدراک صحیح العقیدہ
دینی عالم سے رجوع کرنا بہرحال ضروری ہے،غیر عالم عامۃ المسلمین
کے لئے قرآن کریم کا یہی حکم ہے۔ فرمایا: ﴿فَسْئَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (ترجمہ کنز العرفان: اے لوگو!اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں
سے پوچھو۔)“(بہار شریعت،جلد 3،حصہ 19،(ضمیمہ)صفحہ 1022،مکتبۃ
المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟