Fatima Agar Allah Ke Yahan Pakar Hogai Tu Mein Tumhare Kisi Kaam Nahi Aaunga

" اے فاطمہ ! اگر اللہ کےیہاں پکڑ ہوگئی تو میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا " کا مطلب

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2294

تاریخ اجراء: 08جمادی الثانی1445 ھ/22دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اس طرح کی کوئی حدیث پاک موجود ہے کہ:" حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے فرمایا ہو کہ :"اے فاطمہ !میرے مال سے جو لینا ہے لے لو،لیکن اگر اللہ کےیہاں پکڑ ہوگئی تو میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔"اگر ایسی کوئی حدیث موجود ہے توا س کا کیا مطلب ہے ؟نیز اس حدیث کی بنیاد پر اگر کوئی شخص یہ کہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اپنی بیٹی کی بخشش بھی نہیں کروا سکتے ،تو کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اللہ رب العزت نے جب حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اپنے قریبی رشتہ داروں کو جہنم کے عذاب سے ڈراکر ایمان کی طرف بلانےکا حکم ارشاد فرمایا،تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہوئے اور اپنے اقارب و اہل بیت کو ایمان کی دعوت دی اور چند ناموں کو بالخصوص متوجہ کرتے ہوئے  آگ سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ان ہی ناموں میں سے ایک نام   حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بھی لیا،لہٰذا آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو  متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ” اے فاطمہ آگ سے بچو ،ورنہ اللہ کے مقابلے میں تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکوں گا“۔جس کا معنی یہ ہے کہ ایمان لاکر آگ سے بچو، ایمان کے بغیر جہنم سے آزادی کی کوئی راہ نہیں،اگر  تم ایمان نہ لائی تو اس وقت میری قرابت بھی فائدہ نہ دے گی۔اس سے در اصل مقصود لوگوں کو  اس بات کی تبلیغ تھی کہ ایمان کے بغیر کسی کی نجات نہیں خواہ وہ   کسی نبی کا قرابت دار ہو یا اولاد،کنعان نبی زادہ تھا،لیکن ایمان نہ لانے کی وجہ سے جہنم کا سزاوار ہوا، لہٰذا مذکورہ بالاجملہ”میں تمہارے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں گا“کی مراد واضح ہوگئی کہ یہ فرمان اس وقت ہے  جبکہ وہ ایمان نہ لاتیں ،کیونکہ کافر کے لئےشفاعت نہیں،جیسا مصنف ابن ابی شیبہ کی حدیث میں خودحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےارشاد فرمایا: أعطيت الشفاعة وهي نائلة من لم يشرك بالله شيئا“ مجھے شفاعت عطا کی گئی، اس سے  ہر اس شخص کو حصہ ملے گا جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو۔(مصنف ابن ابی شیبہ،ج10،ص397، رقم : 32340،دار الفاروق، مصر)

   اس سےیہ  ہرگز مراد نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کے مالک و مختار نہیں ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے شفاعت کا مالک و مختار بنا دیا  ہے۔ بخاری شریف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خصائص کو بیان کرتے ہوئے ایک خصوصیت یہ بھی بیان فرمائی کہ:”اعطیت الشفاعۃ“مجھ کو شفاعت عطا کی گئی ہے۔( صحیح بخاری، ج 1ص 95،رقم:438،دار طوق النجاۃ)

   اورخصوصا اہل بیت کرام کے بارے میں تو صراحتاً شفاعت کا مژدہ مذکورہے،ملاحظہ ہو:

   علامہ سید ابن عابدین شامی فرماتے ہیں: کہ امام احمدبن حنبل،بیہقی اور حاکم نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابوسعید سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بر سر منبر فرمایا : یہ کیسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اپنے رشتہ داروں کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔یاد رکھو میں ان کو دنیا و آخرت دونوں میں نفع پہنچاؤں گا۔

   نیز علامہ شامی فرماتے ہیں :کہ طبرانی نے معجم میں سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی  اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : اللہ نہ تم کو عذاب  دے گا اور نہ تمہاری اولاد کو۔

   اس کے علاوہ علامہ شامی مزید فرماتے ہیں :کہ طبرانی، دار قطنی اور صاحب کتاب فردوس نے حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے میں اپنے اہل بیت کی شفاعت کروں گا پھر جو ان کے قریب ہوں گے پھر انصار کی شفاعت کروں گا ۔“

   واضح رہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا مطلقا انکار کرنے والا کافر ہے،اور کسی خاص نوع کا انکار کرنے والا گمرا ہ ہےمثلا شفاعت بالمحبۃ ،بالوجاہت یا بالاذن کا انکار کرنے والا ۔

   صحیح مسلم میں ہے:” عن عائشة، قالت: لما نزلت {وأنذر عشيرتك الأقربين} [الشعراء: 214] قام رسول الله صلى الله عليه وسلم على الصفا، فقال: يا فاطمة بنت محمد، يا صفية بنت عبد المطلب، يا بني عبد المطلب، لا أملك لكم من الله شيئا، سلوني من مالي ما شئتم“حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے،کہ جب  مذکورہ آیت” وأنذر عشيرتك الأقربين“نازل ہوئی توحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفا پر کھڑے ہوئے،اور فرمایا اے فاطمہ بنت محمد ،اے صفیہ بنت عبد المطلب،اے بنی عبد المطلب، اللہ کے مقابلے میں، میں تمہارے کسی چیز کا مالک نہیں،میرے مال سے جو مانگنا چاہو مانگ لو۔(صحیح مسلم،ج01، ص192، رقم:350،دار إحياء التراث العربي – بيروت)

   حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:” يا فاطمة، أنقذي نفسك من النار، فإني لا أملك لكم من الله شيئا، غير أن لكم رحما سأبلها ببلالها“اے فاطمہ خود کو جہنم سے بچاؤ ،اللہ کے مقابلے میں،میں تمہارے کسی چیز کا مالک نہیں مگر یہ کہ تم سے رشتہ داری ہے،تمہیں اس کی تری سے تر رکھوں گا۔(صحیح مسلم،ج01،ص192، رقم:348،دار إحياء التراث العربي – بيروت)

   مرأۃ المناجیح میں ہے:” اپنی جانوں کو آگ سے بچانے کے معنی یہ ہیں کہ تم لوگ ایمان قبول کرلو تاکہ تم نار جہنم سے بچ جاؤ،اس آگ سے بچنے کا ذریعہ ایمان و اطاعت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کو بھی اسلام کی تبلیغ کی جائے کیونکہ اس وقت جناب فاطمہ چھوٹی بچی تھیں، سب لوگوں کے سامنے علانیہ حضرت فاطمہ کو تبلیغ فرمانا لوگوں کو سنانے کے لیے ہے کہ بغیر ایمان قبول کیے نبی کی قرابتداری بلکہ نبی کی اولاد ہونا کافی نہیں۔کنعان نبی زادہ تھا مگر کفر کی وجہ سے جہنمی ہوگیا۔ ۔۔۔ اے فاطمہ اگر تم نے ایمان قبول نہ کیا اور تم آخرت میں سز ا کی مستحق ہوگئیں تو وہ سزا میں تم سے دفع نہیں کرسکتا اور تم عذاب الٰہی سے نہیں بچ سکتیں لہذا یہ حدیث نہ تو اس آیت کے خلاف ہے ”وَمَا کَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنۡتَ فِیۡہِمْکیونکہ اس آیت میں دنیاوی عذاب مراد ہے حضور کی برکت سے کفار پر دنیاوی عذاب نہیں آتا اور یہاں اخروی عذاب مراد ہے اور نہ اس حدیثِ شفاعت کے خلاف ہے شفاعتی لاھل الکبائر من امتی کہ میری شفاعت میری امت کے گناہ کبیرہ والوں کو بھی پہنچے گی کہ وہاں امت کا ذکر ہے یہاں کفار کا ذکر ہے۔“(مرأۃ المناجیح،ج07،ص146،قادری پبلشرز،لاہور)

   شرح صحیح مسلم میں ہے:” اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کے مالک نہیں ہیں اور خصوصا حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اور دیگر اہل بیت کرام کی شفاعت کا آپ کو اختیار نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ تعالٰی کی اجازت اور اس کے بتائے بغیر شفاعت کے مالک و مختار نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے شفاعت کا مالک و مختار بنا دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے : اعطیت الشفاعۃ ، مجھ کو شفاعت عطا کر دی گئی ہے(صحیح بخاری ج ۱ص ۶۲) اورخصوصا اہل بیت کرام کے بارے میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیں :

   علامہ سید ابن عابدین شامی فرماتے ہیں کہ:" امام احمدبن حنبل،بیہقی اور حاکم نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابوسعید سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بر سر منبر فرمایا : یہ کیسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اپنے رشتہ داروں کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔یاد رکھو میں ان کو دنیا و آخرت دونوں میں نفع پہنچاؤں گا۔"

   نیز علامہ شامی فرماتے ہیں کہ:" طبرانی نے معجم میں سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی  اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ:اللہ نہ تم کو عذاب  دے گا اور نہ تمہاری اولاد کو۔"

   اس کے علاوہ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ:" طبرانی، دار قطنی اور صاحب کتاب فردوس نے حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے میں اپنے اہل بیت کی شفاعت کروں گا پھر جو ان کے قریب ہوں گے پھر انصار کی شفاعت کروں گا ۔“ (شرح صحیح مسلم، ج01، ص832،فرید بک اسٹال،اردو بازار ،لاھور)

   کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب میں ہے:” مُطلَقاًشَفاعت کا انکار حکمِ قراٰنی کا انکار اورکُفر ہے۔ چُنانچِہ قراٰنِ کریم کی مشہورو معروف آیتِ کریمہ اٰیۃُ الکُرسی میں ہے :( مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشْفَعُ عِنْدَہٗۤ اِلَّا بِاِذْنِہ)ترجَمۂ کنزالایمان:وہ کون ہے جو اس کےیہاں سِفارش کرے بے اس کے حکم کے۔ (پ 3 ،سورۃ البقرۃ ،آیت 255)

     صدرُ الافاضِل حضرتِ علامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں:”اِس میں مُشرِکین کا رَد ہے جن کا گُمان تھا کہ بُت شَفاعت کرینگے ۔انہیں بتا دیا گیا کہ کُفّار کے لئے شَفاعت نہیں۔ اللہ (عَزَّوَجَلَّ)کے حُضُور مَأذُوْنِیْن(یعنی اجازت یافتگان)کے سوا کوئی شَفاعت نہیں کرسکتا اور اِذن والے(یعنی اجازت یافتہ)انبِیاء وملائکہ ومُؤمنین ہیں۔ (خَزَائِنُ الْعِرْفَان ص76) اَلْبَحْرُ الرَّائِق“جلد1 صَفْحَہ 611 پر ہے:”جو نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت کا منکر ہو یا کراما  کاتبین کا منکر ہو یا رُویت باری (یعنی دیدارِ الہٰی )کا انکار کر تا ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں اس لیے کہ وہ کافر ہے۔“(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،ص575،مکتبہ المدینۃ ،کراچی)

   بہار شریعت میں ہے” ہر قسم کی شفاعت حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے لیے ثابت ہے۔ شفاعت بالو جاہۃ، شفاعت بالمحبۃ، شفاعت بالاذن، اِن میں سے کسی کا انکار وہی کریگا جو گمراہ ہے۔“(بہار شریعت،ج01،حصہ 1،ص72، مکتبۃ المدینۃ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم