Duniya Mein Bhalai Ka Sawal Karne Se Mutaliq Hadees

 

دنیا میں بھلائی کا سوال کرنے سے متعلق حدیث

مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1802

تاریخ اجراء:17محرم الحرام1446ھ/24جولائی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا یہ حدیث میں ہے کہ  حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کسی  شخص کو دنیا کی بھلائی کا سوال کرنے کی ترغیب دی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک مسلمان شخص  کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے گئے، اس سے ارشاد فرمایا کہ کیا اللہ پاک سےتو کوئی خاص دعا کیا کرتا تھا، تو اس نے عرض کی کہ  میں اللہ پاک سے یہ دعا کیا کرتا تھا کہ اے میرے خدا! تو جو سزا مجھے آخرت میں دینے والا ہے ، وہ مجھے دنیا ہی میں دے دے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اظہارِ تعجب کرتے ہوئے فرمایا کہ تو نہ دنیا میں اس کی طاقت رکھتا ہے اور نہ آخرت میں ، اللہ پاک سے یوں دعا کیوں نہیں کی کہ ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما۔یہ حدیث کئی کتبِ حدیث مثلاً:صحیح مسلم، مسند احمد، سننِ نسائی اور مشکوٰۃ المصابیح میں موجود ہے۔

   مشکوۃ المصابیح میں بحوالہ صحیح مسلم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا:” أن رسول الله صلى الله عليه و سلم عاد رجلا من المسلمين قد خفت فصار مثل الفرخ فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم :هل كنت تدعو الله بشيء أو تسأله إياه ؟ قال: نعم كنت أقول: اَللّٰهُمَّ  مَا كُنْتَ مُعَاقِبِي بِهٖ فِي الْآخِرَةِ فَعَجِّلْهُ لِي فِي الدُّنْيَا ، فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم: سبحان الله! لا تطيقه  و لا تستطيعه  أفلا قلت:اَللّٰهُمَّ  آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ؟ قال فدعا الله له فشفاه “یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان شخص کی عیادت کی جو کمزور ہو کر چوزہ کی طرح ہوگیا تھا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا :کیا تو اللہ سے کسی چیز کی دعا کیا کرتا تھا یا کوئی سوال کرتا تھا؟، اس نے عرض کی:ہاں میں یہ کہتا تھا کہ الٰہی !تو جو سزا مجھے آخرت میں دینے والا ہے وہ مجھے دنیا ہی میں دے دے ، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سبحان اللہ!تو اس کی طاقت و قدرت نہیں رکھتا ، تو نے یہ کیوں نہ کہا کہ خدایا ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرمااور آخرت میں بھلائی عطا فرمااور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا لے، (راوی)فرماتے ہیں:اس نے اللہ سے یہی دعا مانگی، تو اللہ پاک نے اسے شفا عطا فرما دی۔(مشکوۃ المصابیح مع مرقاۃ المفاتیح، جلد5، صفحہ 415۔416، مطبوعہ:بیروت)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے الفاظ:”الٰہی !تو جو سزا مجھے آخرت میں دینے والا ہے وہ مجھے دنیا ہی میں دے دے “ کے تحت فرماتے ہیں:”ان صحابی کی یہ عرض و معروض خو فِ آخرت اور خوفِ عذاب کی بنا پر ہے وہ سمجھے یہ تھے کہ گناہوں پر سزا ضرور ملتی ہے،اگر آخرت میں ملی تو سخت اور دیرپا ہوگی  اور اگر دنیا میں ملی تو ہلکی اور عارضی ہوگی کہ موت ہر مصیبت کی انتہا ہے۔ان کی نظر اللہ  کی معافی کی طر ف نہ گئی۔معلوم ہوا کہ ہمیں تو رب تعالیٰ سے مانگنا بھی نہیں آتا جب تک کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نہ سکھائیں۔ “

   حدیث پاک کے الفاظ:” تو اس کی طاقت و قدرت نہیں رکھتا “کے تحت فرماتے ہیں:”یعنی نہ تو تو دنیا کے عذاب کی طاقت رکھتا ہے اور نہ آخرت کے عذاب کی لہٰذا یہ کلمہ ممکن نہیں اگرچہ خطاب ان صاحب ہی سے ہے مگر روئے سخن سب کی طر ف ہے یعنی ساری مخلوق اس کے عذاب کی طاقت نہیں رکھتی وہ اپنا کرم ہی کرے۔ “(مراۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ 84، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم