Dosre Ki Taraf Se Sajda e Tilawat Karna

دوسرے کی طرف سے سجدہ تلاوت کرنا

مجیب: مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2588

تاریخ اجراء: 11رمضان المبارک1445 ھ/22مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرےبھانجےڈیوٹی پرجاتےاورآتے وقت سورہ سجدہ کی تلاوت کرتےہیں،اس میں جو سجدہ آتاہے،وہ ادانہیں کرتے،ان کی طرف سے ان کی نانی سجدہ کرسکتی ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      عبادت بدنیہ میں نیابت جاری نہیں ہوتی،یعنی انہیں انجام دینےکےلیےبندہ کسی اور کواپنانائب نہیں بناسکتا،بلکہ اسے خودہی اداکرنی ہوگی۔لہذاپوچھی گئی صورت میں آپ کےبھانجےکوچاہیےکہ جب سجدہ تلاوت اس پرواجب ہواہے،تووہ خودہی سجدہ کرے،نانی یاکسی اورکےاداکرنےسےاس کاواجب ادانہیں ہوگا۔ہاں نانی نے ان سے آیت سجدہ سنی ہے تو خود ان پر بھی سجدہ تلاوت واجب ہوا لہٰذا وہ اپنے اوپر واجب سجدہ ادا کریں گی اور بھانجے کو اپنا سجدہ خود ہی کرنا ہوگا جبکہ وہ مکلف  یعنی عاقل بالغ ہو، اگر وہ نابالغ ہے تو اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ۔

   بدائع الصنائع میں ہے”والبدنية المحضة لا تجوز فيها النيابة على الاطلاق لقوله عز وجل ﴿ وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىالا ما خص بدليل وقول النبی صلى الله عليه وسلم"لا يصوم احد عن احد ولا يصلی احد عن احد" ای فی حق الخروج عن العهدة لا فی حق الثواب“ترجمہ: جو محض بدنی عبادات ہوں ان میں مطلقا نیابت جائز نہیں ،اللہ تعالی کے اس فرمان کی وجہ سے ﴿وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى﴾ مگر جو کسی دلیل سے خاص ہو جائے ( اس میں نیابت درست ہو گی) اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : نہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ رکھے، نہ کوئی کسی کی طرف سے نماز ادا کرے، یہ فرمان اپنے اوپر لازم شدہ کام سے بر ی الذمہ ہونے کے حق میں ہے نہ کہ ثواب کے حق میں ۔ ( یعنی کوئی کسی کی طرف سے نماز پڑھ کر یاروزہ ر کھ کر اس کو بری الذمہ نہیں کر سکتا، بلکہ اس کو خو د رکھنا ہو گا پھر بری الذمہ ہو گا ،لیکن نماز، روزہ کا ثواب پہنچا سکتا ہے۔(بدائع الصنائع ، ج 02 ، ص212، دار الكتب العلمية،بیروت)

      فتاوی ہندیہ میں ہے” والأصل في وجوب السجدة أن كل من كان من أهل وجوب الصلاة إما أداء أو قضاء كان أهلا لوجوب سجدة التلاوة ومن لا فلا، كذا في الخلاصة حتى لو كان التالي كافرا أو مجنونا أو صبيا أو حائضا أو نفساء ۔۔۔ لم يلزمهم“ترجمہ:سجدہ تلاوت واجب ہونے میں اصل یہ ہے کہ جو وجوبِ نماز کا اہل ہے چاہے اداء ہو یا قضا،وہی سجدہ تلاوت کے وجوب کا اہل ہے اور جو وجوبِ نماز کا اہل نہیں وہ سجدہ تلاوت کے وجوب کا اہل نہیں،جیسا کہ خلاصہ میں ہے حتی کہ کافر،مجنون،نابالغ نے یاحیض و نفاس والی عورت نے آیت سجدہ تلاوت کی تو ان سب پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوگا۔(فتاوی ھندیۃ،ج 1،ص 132،دار الفکر،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم