Dekh Kar Quran Parhna Zubani Se Afzal Aur Ghusl Farz Hone Ki Halat Mein Quran Ko Dekhna

دیکھ کر قرآن پاک پڑھنا، زبانی سے افضل ہے اور حالتِ جنابت میں قرآن پاک کو دیکھنا کیسا؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-12210

تاریخ اجراء: 29شوال المکرم1443 ھ/31مئی2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مجھے دو مسئلوں سے متعلق شرعی رہنمائی درکار ہے:

   (1)جس مرد یا عورت پر غسل فرض ہو،کیا وہ بنیتِ ثواب قرآن پاک کی زیارت کرسکتا ہے؟

   (2)مسئلہ بیان کیا جاتا ہےکہ دیکھ کر قرآن پڑھنا زبانی پڑھنے سے افضل ہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟نیز کیا ہر صورت میں ایسا ہی ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)جس مرد یا عورت پرغسل فرض ہو،وہ بغیر چھوئے قرآن پاک کی زیارت کرسکتا ہےاور ثواب کی نیت ہو، تو ثواب بھی ملے گا ،حدیث شریف میں قرآن پاک کی زیارت کو آنکھوں کا حق قرار دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ جس پر غسل فرض ہو ،وہ زبانی بھی قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرسکتا۔

   قرآن پاک کو دیکھنا عبادت ہے، جیساکہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اعطوا أعينكم حظها من العبادة قيل : يا رسول اللہ  و ما حظها من العبادة قال : النظر في المصحف و التفكر فيه و الاعتبار عند عجائبه “یعنی اپنی آنکھوں کو ان کی عبادت کا حصہ دو۔عرض کیا گیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آنکھ کی عبادت کا حصہ کیا ہے؟ فرمایا:قرآن پاک کی زیارت کرنا،اس میں غوروفکر کرنا اور اس کےعجائبات پر غورکرنا۔(شعب الایمان للبیھقی،ج2،ص348،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   جس پر غسل فرض ہو اس کےقرآنِ پاک کودیکھنے سے متعلق درِّ مختار میں ہے:”ولا يكره النظر اليه ای القرآن لجنب وحائض ونفساء“یعنی جنبی،حیض ونفاس والی کو قرآن کی طرف دیکھنا مکروہ نہیں۔

   اس کے تحت فتاوی شامی میں ہے:”لانه لم يوجد فی النظر الا المحاذاة“یعنی کیونکہ نظر کرنے میں قرآن کا صرف آنکھوں کی سیدھ میں ہونا پایاجارہا ہے(اسے چھونا نہیں پایاجارہا)۔(الدرّ المختاروردّا لمحتار،ج01،ص349،مطبوعہ کوئٹہ)

   صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”قرآنِ مجید دیکھنے میں ان سب(یعنی بےوضو،جنبی، حیض ونفاس والی) پر کچھ حرج نہیں، اگرچہ حروف  پر نظر پڑے اور الفاظ سمجھ میں آئیں اورخیال میں پڑھتے جائیں۔“ (بھار شریعت،ج1،حصہ2،ص327مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   (2)روایات میں قرآن کو  دیکھ کرتلاوت کرنے کو زبانی تلاوتِ قرآن پاک سے افضل قرار دیا گیا ہے،اس کی وجہ  یہ ہے کہ اس میں پڑھنا بھی ہے،قرآن کو دیکھنااورہاتھ سے اس کا چھونا بھی اوریہ  سب کام عبادت ہیں۔واضح رہے کہ شارحینِ حدیث نےیہ افضلیت اس وقت قرار دی ہے کہ جب قرآن  میں دیکھ کرپڑھنےاورزبانی پڑھنے میں سے کسی صورت میں خشوع وخضوع میں اضافہ نہ ہوتا ہو، ورنہ اگر زبانی پڑھنے میں خشوع وخضوع میں اضافہ ہوتا ہو،تو پھر زبانی پڑھنا افضل ہے کہ عبادت میں اصل مدار خشوع وخضوع پر ہے۔

   مشکوۃ شریف میں شعب الایمان کے حوالے سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قراءة الرجل القرآن فی غير المصحف الف درجةٍ وقراءته فی المصحف تضعف علی ذلك الى الفَی درجةٍ“یعنی کسی شخص کا بغیر قرآن پاک دیکھے تلاوت کرنا ہزار درجہ ہے اور قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنا اس پر دو ہزار درجہ افضل ہے۔ (مشکوۃ المصابیح ، جلد 1 ، صفحہ 666 ، المکتب الاسلامی)

   امام دیلمی علیہ الرحمۃ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”فضل قراءة القرآن نظرا على من يقرؤه ظاهرا كفضل الفريضة على النافلة“یعنی قرآن میں دیکھ کر عبادت کرنے والے کی فضیلت زبانی تلاوت کرنے والے پر ایسے ہے جیسے فرض کی فضیلت نفل پر۔(الغرائب الملتقطۃ من مسند الفردوس لابن حجر،ج5،ص997،مطبوعہ جمعیۃ دار البرّ ، دبئی)

   اس کے تحت علامہ عبدالرؤف مناوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”فالقراءة نظرا في المصحف افضل لانها تجمع القراءة والنظر وهو عبادة اخرى نعم ان زاد خشوعه بها حفظا فينبغی كما فی المجموع تفضيله لان المدار على الخشوع ما امكن اذ هو روح العبادة وراسها“ یعنی قرآن پاک میں دیکھ کر تلاوت افضل عمل ہےکہ اس میں قراءت اور دیکھنادونوں عبادتیں جمع ہورہی ہیں ، ہاں اگر دیکھ کرتلاوت کرنے کی بنسبت زبانی پڑھنے میں خشوع میں اضافہ ہوتا ہو تو پھرزبانی تلاوت افضل ہونی چاہئے ، جیساکہ امام نووی علیہ الرحمۃ کی مجموع میں خشوع والی صورت میں زبانی پڑھنے کو افضل قرار دیا گیا ہے ، کیونکہ افضلیت کا اصل دارومدار ممکنہ حد تک حاصل ہونے والے خشوع،خضوع پر ہے اور یہی خشوع وخضوع عبادت کی بنیاد اور اس کی روح ہے۔(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر،ج4،ص575،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

   اوپر مشکوٰۃ شریف کی ذکرکردہ روایت کے تحت علامہ علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”من هذا اخذ جمع بان القراءة نظراً فی المصحف افضل مطلقاً وقال آخرون: بل غيباً افضل مطلقاً ولعلّه عملا بفعله عليه الصلاة والسلام والحق التوسّط فان زاد خشوعه وتدبره واخلاصه فی احدهما فهو الافضل والا فالنظر لانه يحمل على التدبر والتامل فی المقروءة اكثر من القراءة بالغيب“یعنی مشکوٰۃ کی اوپر والی روایت سے علماء کی ایک جماعت نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت مطلقاً افضل ہے ، جبکہ دیگر کچھ علماء کی رائے ہے کہ زبانی پڑھنا مطلقاً افضل عمل ہےاورممکن ہے کہ دونوں رائے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل مبارک پر عمل کررہے ہوں اورحق موقف درمیانی راہ ہے ، لہٰذا زبانی یا دیکھ کر ،جس صورت میں خشوع،خضوع میں اضافہ ہوتا ہو ، وہی افضل ہےورنہ(اگر دونوں صورتوں میں خشوع،خضوع حاصل ہوتا ہوتو)دیکھ کر پڑھنا افضل ہے کہ دیکھ کر پڑھنے میں جتنا فکروتدبّر حاصل ہوتا ہے اتنا زبانی قراءت میں نہیں ہوتا۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح،ج4،ص372،مطبوعہ ملتان)

   علامہ عبد الحق محدّث دہلوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”قال النووی: لیس ھذا علی اطلاقہ بل ان کان القارئ من حفظہ یحصل لہ من التدبّر والتفکّر وجمع القلب والبصر اکثر مما یحصل لہ من المصحف فالقراءۃ من الحفظ افضل وان استویا فمن المصحف افضل وھذا مراد السلف“یعنی امام نووی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ روایت کی افضلیت مطلق نہیں، بلکہ اگر زبانی پڑھنے میں غوروفکر میں اضافہ ہوتا ہے ، نیزدل جمعی پیدا ہوتی ہےاور قرآن سے دیکھ کر پڑھنے میں یہ کیفیت زبانی پڑھنے کے مقابلے میں کم ہوتی ہے تو اب زبانی قراءت افضل ہےاور اگر دونوں صورتیں برابر ہوں ، تو پھر قرآن میں دیکھ کر تلاوت افضل ہے ۔ یہی سلف صالحین کی مراد ہے۔(لمعات التنقیح شرح مشکوۃ المصابیح،ج4،ص572،مطبوعہ لاھور)

   فتاوی قاضی خان میں ہے:”وقراءة القرآن فی المصحف اولى من القراءة عن ظهر القلب لما روى عبادة بن الصامت رضي اللہ تعالى عنه عن النبی صلى اللہ عليه وسلم انه قال: افضل عبادة امتی قراءة القرآن نظراً ولان فيه جمعاً بين العبادتين وهو النظر فی المصحف وقراءة القرآن “یعنی قرآن میں دیکھ کر تلاوت زبانی تلاوت سے افضل ہے کیونکہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری امت کی افضل ترین عبادت قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنا ہے ۔ نیز اس میں دو عبادتوں کو جمع کرنا ہے یعنی قرآن میں دیکھنا اور اس کی تلاوت۔(فتاوی قاضی خان،ج1،ص146،مطبوعہ کراچی)

   صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”قرآنِ مجید دیکھ کر پڑھنا،زبانی پڑھنے سے افضل ہے کہ یہ پڑھنا بھی ہے اور دیکھنااورہاتھ سے اس کا چھونا بھی اور سب عبادت ہیں۔“(بھار شریعت،ج1،حصہ3،ص550، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم