Chalte Hue Tilawat e Quran Karne Ka Hukum

چلتے ہوئے تلاوتِ قرآن  کرنے کاحکم

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13257

تاریخ اجراء:18 رجب المرجب 1445 ھ/30 جنوری 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں منزل دُہرانے کے لیے یا ویسے ہی تلاوتِ کلامِ پاک کرتا ہوں، بیٹھے بیٹھے تلاوت کرنے میں سُستی آجاتی ہے، تو کھڑے ہوکر چلتے چلتے تلاوت کرتا ہوں، معلوم یہ کرنا ہے کہ میں چلتے ہوئے تلاوتِ کلامِ پاک کرسکتا ہوں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   چلتے ہوئے تلاوت کرنا ، جائز ہےجبکہ چلنے کی وجہ سے دل تلاوت کے علاوہ کسی اور طرف مشغول نہ ہوتا ہو۔  اگرچلنے کی وجہ سے توجہ بٹتی ہو یا دل تلاوت کے علاوہ کسی اور طرف مشغول ہورہا ہو، تو اس صورت میں چلتے ہوئے تلاوت کرنا، مکروہ و ناپسندیدہ عمل ہے۔

   فتاوی تاتارخانیہ،فتاوی خانیہ،حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے:”أما قراءة الماشي والمحترف إن كان منتبها لا يشغله العمل والمشي جاز“یعنی چلتے ہوئے اور کوئی کام کرتے ہوئے تلاوت کرنا ،  جائز ہے بشرطیکہ وہ متوجہ رہے اور  اس کا کام کرنا یا چلنا اس کی توجہ بٹنے کا سبب نہ بنے ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،صفحہ 143، مطبوعہ بیروت)

   حلبی کبیری میں ہے:”والقراءۃ ماشیا  او وھو یعمل عملا ان کان منتبھا لا یشغل قلبہ المشی والعمل جائزۃ والا تکرہ“ یعنی چلتے ہوئے یا کوئی کام کرتے ہوئے قراءت کرنا،   جائز ہے، جبکہ وہ متوجہ رہے، چلنا یا کام کرنا اس کے دل کو مشغول نہ کردے ،ورنہ مکروہ ہے۔(حلبی کبیری،صفحہ 496، مطبوعہ عارف آفندی)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”چلنے اور کام کرنے کی حالت میں بھی تلاوت جائز ہے ،جبکہ دل نہ بٹے، ورنہ مکروہ ہے۔“(بھارشریعت،جلد1،صفحہ551، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم