Ayat e Istirja Ko Rasm e Usmani Mein Na Likhna Kaisa Hai ?

" اِنّا للہ وانّا الیہ رٰجعون " میں ”رٰجعون “کو الف کے ساتھ لکھنا کیسا ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD- 8321

تاریخ اجراء: 21 شوال المکرم 1444 ھ / 12مئی 2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ قرآن پاک میں آیتِ اِسْتِرْجاع اس طرح  ہے:" انا للہ وانا الیہ رٰجعون "اب اگر کوئی خبر ِغم سن کر یوں لکھے:"انا للہ وانا الیہ راجعون " یعنی  لفظِ " رٰجعون " میں کھڑی حرکت کی جگہ الف  لکھ دے ، تو کیا یہ غلط ہو گا ؟  اور اگر  غلط ہے  ،تو  کیا قرآنِ مجید کی  نیت کیے بغیر  ، محض خبرِ غم پر جواب وغیرہ  کی نیّت سے لکھ سکتے ہیں ؟سائل : محمد  حاشر   مدنی ( فیصل آباد )

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آیتِ استرجاع : " اِنّا للہ وانّا الیہ رٰجعون "  میں لفظِ " رٰجعون " کو   راء پر کھڑا زبر کے ساتھ لکھنا ضروری ہے ، الف کے ساتھ "راجعون "  لکھنے  کی ہرگز اجازت نہیں  کہ قرآنِ مجید میں رسمِ عثمانی کی رعایت کرنا فرض  ہے، البتہ اگر لکھنے میں آیتِ قرآنی کی نیّت  نہ  ہو ، بلکہ محض اظہارِ افسوس  یا خبرِ غم کے جواب یا مصیبت کے وقت اس جملے کو کہنے کی حدیثِ پاک میں   بیان کردہ  فضیلت پانے کی نیّت  ہو ، تو    "راجعون " الف کے ساتھ  لکھنے میں بھی حرج نہیں ۔

   مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ قرآنِ مجید کو   خاص رسمِ عثمانی  میں لکھنا فرض  ہے،رسمِ عثمانی میں تبدیلی کرنا ، ناجائز و گناہ اور  حرام ہے کہ   رسمِ عثمانی توقیفی ( شریعتِ مطہرہ کا مقرر کردہ )ہے،اس میں کسی اُمّتی کی عقل کاکوئی دخل نہیں،اس رسم کے باقی رکھنے پرخلفاء ِراشدینرِضْوَانُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْن،تابعین، تبع تابعین،ائمہ اربعہ،سلف صالحین اورپوری امت کااجماع ہےاور رسمِ عثمانی میں لفظ  "رٰجعون " راء پر کھڑا زبر کے ساتھ ہے ،  لہٰذا اسے آیت ِ قرآنی کے طور پر لکھتے ہوئے تبدیل کر کے  " راجعون "   لکھنے کی اجازت نہیں ۔

   جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ  لکھنے والا   خاص اس جملے " انا للہ وانا الیہ راجعون "    کو  محض اظہارِ افسوس کے لیے یا خبرِ غم کے جواب   میں   یا مصیبت کے وقت اس جملے کو کہنے کی حدیثِ پاک میں   بیان کردہ  فضیلت پانے کی غرض سے لکھے ،تو  اس کے لیے الف کے ساتھ" راجعون "    لکھنے  میں حرج نہیں ، کیونکہ ایسے موقع پر عموماً قرآنی آیت لکھنا مقصود نہیں ہوتا اور جب  اس جملے سے آیتِ قرآنی  کی حکایت کرنا مقصود ہی نہیں ہوتا ، تو قرآنِ مجید لکھنے ، پڑھنے وغیرہ کے احکام بھی   جاری اور نافذ  نہیں ہوں گے   ، یہی وجہ ہے کہ اَئمۂ دین  ، محدثینِ عظام اور فقہائے کرام اس جملے کو   بطورِ دعا و جواب  ، الف کے ساتھ " راجعون "     لکھتے آئے ہیں  ۔

   اس کی نظیر یہ ہے کہ ہمارے ہاں کتابوں یا تحریرات وغیرہ کے شروع میں بسم اللہ شریف لکھی جاتی ہے  اور اس میں  عموماً آیتِ قرآنی کی حکایت مقصود نہیں ہوتی ،  بلکہ اللہ تعالیٰ کے  مقدس ناموں سے برکت لینا مقصود ہوتا ہے ،  اسی وجہ سے  اس کے لیے رسمِ عثمانی کی رعایت  یا دیگر  وہ احکام نہیں ہوتے ،  جو قرآنِ پاک کی کتابت وغیرہ کے ہیں ۔

   یاد رہے ! یہ حکم عام نہیں کہ  ہر شخص قرآنِ پاک کی کسی بھی آیت   کو اپنی مرضی اور اپنے من پسند انداز میں لکھنا شروع کر دے اور کہے کہ میری اس  جملے سے  حکایتِ قرآن کی نیّت نہیں ہے،لہٰذا  اس کو لکھنے میں مجھ پر  رسمِ عثمانی  و خطِ عثمانی وغیرہ کی کچھ رعایت ضروری نہیں ، میں جیسے چاہوں  ، اس کو لکھ سکتا ہوں  ، بلکہ یہ حکم صرف انہی کلمات میں ہے ،  جن کو  دعا و ثنا وغیرہ کی  نیّت سے لکھنے و بولنے میں  تعاملِ ناس ہے کہ ہر خاص و عام کسی خاص موقع پر ان کلمات کو بطورِ دعا و ثنا  یا بطورِجواب  لکھتا  ، بولتا ہے اور لکھتے ، بولتے وقت حکایتِ قرآن کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی   ، مثلاً حال پوچھنے پر " الحمدللہ رب العالمین "  بولا اور لکھا جاتا ہے ، تو اس سے عموماً   حکایتِ قرآن مقصود    نہیں ہوتا ، لہٰذا اس کو لکھنے میں قرآنی رسم الخط کی رعایت کرنا بھی ضروری نہیں  ، لیکن اگر کوئی شخص اِنہی کلمات کو بطورِ قرآن لکھتا ہے ، اس پر لازم ہے کہ ان کو رسمِ عثمانی کے مطابق  " انا للہ وانا الیہ رٰجعون " اور " الحمدللہ رب العٰلمین " کھڑے زبر کے ساتھ  لکھے ۔

   کتابتِ قرآن میں رسمِ عثمانی کی رعایت ضروری ہونے کےمتعلق جزئیات :

   قرآنِ پاک کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ ترجمہ کنزالعرفان :’’ بیشک ہم نے اس قرآن کو عربی نازل فرمایا تا کہ تم سمجھو۔‘‘( القرآن الکریم ، سورہ یوسف ، آیت 2 )

   مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں مشہور مفسّر  ، حکیم الامت ، مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1391ھ /1971ء ) لکھتے  ہیں :اس سے معلوم ہوا کہ  قرآن  کے لیے یہی عربی  عبارت ضروری ہے ۔ ( تفسیرِ نور العرفان ، سورہ یوسف ، آیت 2 )

   امام ابو داؤد سلیمان بن نجاح اندلسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ ( سالِ وفات : 496 ھ )  " مختصر التبیین " میں لکھتے ہیں:وقال الامام احمد رحمه اللہ: ’’ تحرم مخالفة خط مصحف عثمان في ياء أو واو أو ألف أو غير ذلك ‘‘ وفي شرح الطحاوي: ينبغي لمن أراد كتابة القرآن أن ينظم الكلمات كما هي في مصحف عثمان رضي اللہ عنه لاجماع الأمة على ذلك...فاتفق الجمهور على وجوب التمسك والعمل بالرسم العثماني، ونقل الجعبري وغيره إجماع الائمة الأربعة على وجوب اتباع مرسوم المصحف العثماني  ترجمہ : امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : ’’ یا ء ، واؤ ،الف "  وغیرہ کسی بھی حرف  میں رسمِ عثمانی کی مخالفت     کرنا حرام ہے   ، شرح طحاوی میں ہے  کہ جو کتابتِ قرآن کرنا چاہے ، تو اسے چاہیے کہ کلمات کو اسی انداز میں تحریر کرے ، جس طرح  حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے مصحف شریف میں تحریر ہے  ، کیونکہ اس بات پر امت کا اجماع ہے   ، جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ رسمِ عثمانی پر عمل کرنا اور اسی سے استدلال کرنا واجب ہے  اور علامہ جعبری   عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ اور ان کے علاوہ دیگر علماء نے نقل کیا ہے کہ رسمِ عثمانی کی اتباع کے وجوب پر ائمہ اربعہ کا اِجماع ہے۔( مختصر التبیین لھجاء التنزیل ، جلد 1 ، صفحہ 210 ، 211  ،مطبوعہ مجمع الملک فھد ،  المدینۃ المنورہ )

   الاتقان فی علوم القرآن میں ہے :قاعدة : أجمعوا ‌على ‌لزوم اتباع رسم المصاحف العثمانية في الوقف إبدالا وإثباتا وحذفا ووصلا وقطعا ترجمہ :  قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ وقف کی صورت میں ابدال و اثبات کرنے اور حذف و وصل و قطع  میں مصاحفِ عثمانی کے رسم الخط کی اتباع کرنے میں علمائے کرام کا اجماع ہے ۔( الاتقان فی علوم القران ، جلد 1 ، صفحہ 308 ، مطبوعہ مصر )

   المدخل  لابن الحاج میں ہے :وقد قال مالك  رحمه اللہ  القرآن يكتب بالكتاب الأول، فلا يجوز غير ذلك، ولا يلتفت إلى اعتلال من خالف بقوله: إن العامة لا تعرف مرسوم المصحف   ترجمہ : امام مالک  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے  فرمایا : قرآنِ مجید کو پچھلے انداز (رسمِ عثمانی )  میں ہی لکھا جائے گا ،  اس کے علاوہ کسی اور انداز میں لکھنا جائز نہیں ، اس کی مخالفت کرنے والے کسی شخص کی اس دلیل کی طرف توجہ بھی نہیں کی جائے گی  کہ عام لوگ مصحف کے  رسم کو نہیں جانتے ۔( المدخل ، جلد 4 ، صفحہ 86 ، مطبوعہ دارالتراث ، بیروت )

   آیتِ استرجاع کو لکھنے میں آیتِ قرآنی کی نیّت  نہ کی جائے   ، بلکہ اظہارِ افسوس یا خبرِ غم کے جواب  یا بطورِ دعا  لکھا جائے ، تو اسے الف کے ساتھ "راجعون "     لکھنے میں حرج نہیں  ،جیسا کہ ہمارے ہاں   بطورِ برکت بسم اللہ شریف  کو کتابوں وغیرہ کے شروع میں لکھتے ہیں  ، تو ایسی جگہ تغییرِ قصد سے تغییرِ حکم ہو جاتا ہے،چنانچہ  اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت  الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ /1921ء) سے  سوال ہوا  کہ  بعض استاد چارپائی وغیرہ پر بیٹھے ہوتے ہیں اور طلبا نیچے کتابیں لے کر بیٹھتے ہیں   اور بعض اوقات کتابوں کے شروع میں  بسم اللہ شریف لکھی جاتی ہے ، تو ایسا کرنا کیسا ؟ کیا یہ بسم اللہ شریف لکھنا کلام الناس کہلائے گا یا کلام اللہ ؟  تو آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے  جواباً ارشاد فرمایا :اور بسم اﷲ کہ شروع پرلکھتے ہیں،غالباً اس سے تبرک وافتتاحِ تحریر مراد ہوتا ہے،نہ کتابتِ آیاتِ قرآنیہ ۔ اور ایسی جگہ تغییرِ قصد سے تغییرِ حکم ہوجاتاہے ولہٰذا جنب کو آیات دعا وثنا نہ نیت قرآن ،بلکہ بہ نیت ذکر ودعا پڑھنا جائز ہے۔فی الدرالمختار : لو قصد الدعاء والثناءاوافتتاح امر حل فی الاصح حتی لو قصد بالفاتحۃ الثناء فی الجنازۃ لم یکرہ ،الخ، ملخصا۔ “(فتاوی رضویہ، جلد23، صفحہ337 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   "انّا للہ وانّا الیہ راجعون "  کو  دعا یا مصیبت و بری خبر کے جواب یا اظہارِ افسوس   کی نیّت سے  الف کے ساتھ لکھنے میں تعاملِ ناس  ہے ، محدثین  عظام   و فقہائے کرام   احادیثِ طیّبہ  و فقہی جزئیات کو نقل کرتے ہوئے بطورِ دعا و جواب اپنی کتابوں میں اسی طرح لکھتے آئے  ہیں  ،جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں رسم عثمانی کی رعایت لازم نہیں، چنانچہ ذیل میں احادیثِ طیّبہ و فقہ کی کتابوں کے چند اصل مخطوطات ملاحظہ کیجیے ، جن میں صاحبِ کتاب نے اس جملے کو الف کے ساتھ "راجعون "  لکھا ہے  اور جس مقام پر لکھا ہے ، اس سے واضح سمجھ آتا ہےکہ انہوں نے اس کو بطورِ قرآن نہیں  ، بلکہ بطورِ دعا و  خبرِ غم کے جواب میں لکھا ہے ،ورنہ اگر بطورِ قرآن لکھتے ، تو ضرور رسمِ عثمانی کی رعایت کرتے ہوئے الف کی بجائے کھڑے زبر کے ساتھ  "رٰجعون " لکھتے   ۔  

   چنانچہ ا مام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ حدیثِ پاک نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” عن أبي سلمةأن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، قال: إذا أصاب أحدكم  مصیبۃ  فلیقل : إنالله وإنا إليه راجعون، اللهم عندك أحتسب مصيبتي فأجرني فيها وأبدلني منها خيرا ‘‘ ترجمہ : حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ   بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت پہنچے  ،تو اسے چاہیے کہ یوں دعا کرے  " ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، اے اللہ ! میں تیرے پاس اپنی مصیبت کو پیش کرتا ہوں ،تو مجھے اس مصیبت کے بدلے اجر عطا فرما  اور اس مصیبت کو خیر سے بدل دے۔(سنن ترمذی ، ابواب الدعوات ، جلد  5 ، صفحہ 533 ، مطبوعہ مصر )

عکس المخطو ط :

 

 

( المخطوط جامع الترمذی ، مصدر المخطوط الصنعاء ، موجود فی مکتبۃ المخطوطات )

   یہ روایت دیگر کتبِ احادیث میں بھی موجود ہے اور محدثین نے اس مقام پر  لفظِ " راجعون " کو الف کے ساتھ لکھا   ہے ۔

   کتبِ فقہ میں فقہائے کرام نے  نماز کو فاسد کرنے والی صورتیں بیان کرتے ہوئے  کہاکہ  اگر کسی نمازی نے کوئی  بُری خبر سن کر جواباً کہا : " انّا للہ وانّا الیہ راجعون "     تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی  ، کیونکہ اس کا مقصود تلاوت نہیں ، بلکہ جواب دینا ہے ۔ اس مقام پر جب ان کلمات کو تحریر کیا ، تو الف کے ساتھ "راجعون " تحریر کیا ہے ۔

   چنانچہ نہایۃ الکفایہ شرح ہدایہ میں ہے :قولہ عند المصیبۃ  انّا للہ و انّا الیہ راجعون   یعنی کسی مصیبت و پریشانی پر " انا للہ و انا الیہ راجعون  " کہنا ( بھی نماز کو فاسد کر دیتا ہے ) ۔

عکس المخطوط :

 

( المخطوط نھایۃ الکفایۃ  شرح الھدایہ ، مصدر المصورة ورقمها: مكتبة الغازي ، موجود فی مکتبۃ المخطوطات )

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے :في الجامع الصغير للصدر الشهيد وفي قوله: إنا لله وإنا إليه راجعون إذا أراد الجواب تفسد صلاته عند الكل  ترجمہ :  جامع الصغیر میں صدر  شہید سے منقول ہے  کہ جس نے نماز میں " انا للہ و انا الیہ راجعون  " کہا ، تو  سب کے نزدیک نماز ٹوٹ جائے گی ، جب کہ جواب دینے کی غرض سے کہا ہو ۔( الفتاویٰ الھندیہ ، کتاب الصلاۃ ، جلد 1 ، صفحہ 99 ، مطبوعہ کوئٹہ )

عکس المخطوط :

 

( المخطوط الفتاوی الھندیہ ، الجزء الاول ،  موجود فی مکتبۃ المخطوطات  )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم