Anar (Pomegranate) Ke Mutalliq Aik Tehqeeq

انار سے متعلق ایک روایت کی تحقیق

مجیب:مفتی ابومحمد علی اصغرعطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12494

تاریخ اجراء:27ربیع الاول1444ھ/24اکتوبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے ایک پوسٹ دیکھی ، جس میں ایک حدیث پاک ان الفاظ کے ساتھ درج ہے’’انار کو اس کے اندرونی چھلکوں سمیت کھاؤ ،کیونکہ یہ معدہ کی صفائی کرتا ہے‘‘  کیا واقعی ایسی حدیث موجود ہے؟ اس کا حوالہ عنایت فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   انار کو اندرونی چھلکوں سمیت کھانے سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان نہیں مِل سکا، البتہ یہ قول مولا علی مشکل کُشا کرم اللہ وجہہ الکریم سے منقول ہے،جسے محدثین کی اصطلاح میں حدیث موقوف کہا جاتا ہے،مگر عوام میں حدیث کہنے سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ یہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ،حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے،لہذا مذکورہ بات کو نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔

   واضح رہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی بیان کردہ بعض روایتوں کو محدثین کرام حکماً مرفوع مانتے ہیں۔ کسی روایت کو مرفوع حکمی ماننے  کے لیے چند شرائط  کا ہونا ضروری ہے ۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ  اس چیز کو اپنی عقل سے جاننا ممکن نہ ہو ۔ جبکہ انار کو اندرونی چھلکوں سمیت کھانے کا مفید ہونا خالصتاً  طبی معاملہ ہے، جس کو اپنی عقل و قیاس سے معلوم کرنا ،ممکن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اطباء  اپنے تجربات کی روشنی میں کسی چیز کے کھانے کومفید اور مضر قرار دیتے ہیں ،لہذا اس روایت کو حکمی طور پر مرفوع نہیں کہا جا سکتا ۔

   حضرت ربعیہ  بنت عیاض کلابیہ کہتی ہیں:’’سمعت عليا يقول:كلوا الرمان بشحمه فإنه دباغ المعدة‘‘ ترجمہ: میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا کہ انار کو اس کے اندرونی چھلکےسمیت کھاؤ، کیونکہ یہ معدے کو صاف کرتاہے۔(مسند امام احمد ،احادیث رجال من اصحاب النبی ،ج38، ص273، مؤسسۃ الرسالۃ)

   اس کے موقوف ہونے سے متعلق علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ اطراف المسند المعتلی اور اتحاف المھرہ میں فرماتے ہیں،واللفظ للاول:’’حديث كلوا الرمان بشحمه فإنه دباغ المعدة،موقوف‘‘ ترجمہ: حدیث انار کو اندرونی چھلکے سمیت کھاؤ کہ یہ معدے کو صاف کرتا ہے ، موقوف ہے۔(إتحاف المهرة ،ج11، ص706، مدینہ منورہ)(اطراف المسند المعتلی ، ج4، ص515، دار الکلم الطیب)

   علامہ  ابو الحسن نور الدین ہیثمی علیہ الرحمۃ مذکورہ روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:”رواه أحمد ورجاله ثقاتترجمہ:اسے امام احمد نے روایت کیا اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔(مجمع الزوائد ، کتاب الاطعمۃ ، باب فی الرمان ، ج5، ص45، مکتبۃ القدسی )

   شحم الرمان کے معنی سے متعلق علامہ ابو موسیٰ محمد بن عمر اصبہانی (متوفی 581ھ) لکھتے ہیں:’’شحم الرمان: ما في جوفه سوى الحب. وقيل: هي الهنة التي بين حباتها‘‘  ترجمہ: انار کی چربی سے مراد اس کے اندر موجود دانوں کے علاوہ تمام چیزیں ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ باریک جھلی ہے، جو انار کے دانوں کے درمیان ہوتی ہے۔ (مجموع المغیث ، من باب الشین ، ج2، ص178، مکۃ المکرمۃ)

   تاج العروس میں ہے:’’الشحمة من الرمان الرقيق الأصفر الذي بين ظهراني الحب۔۔وقيل: هي الهنة التي تفصل بين حبه كما في المحكم. وفي حديث علي كرم اللہ تعالى وجهه:’’ كلوا الرمان بشحمه فإنه دباغ المعدة ‘‘ ترجمہ: انار کی شحم سے مراد زرد رنگ کی باریک جھلی ہے جو دانوں کے درمیان ہوتی ہے ،جبکہ ایک قول یہ ہے کہ وہ جھلی جس کے  درمیان سے دانے الگ کیے جاتے ہیں ، شحم کہلاتی ہے جیسا کہ محکم میں ہے ۔ حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ کی حدیث میں ہے کہ انار کو اندرونی چھلکوں کے ساتھ کھاؤ کہ یہ معدے کو صاف کرتا ہے ۔ (تاج العروس ، ش ح م ، ج32، ص457، دار الھدایہ)

   مرفوع حکمی کی وضاحت سے متعلق امام سیوطی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :’’من المرفوع أيضا ما جاء عن الصحابي، ومثله لا يقال من قبل الرأي، ولا مجال للاجتهاد فيه فيحمل على السماع‘‘ ترجمہ : مرفوع میں وہ روایت  بھی شامل ہے جو روایت صحابی سے مروی ہو اور اس طرح کی بات اپنی رائے سے نہ کہی جا سکتی ہو ، نہ ہی اس میں اجتہاد ہو سکتا ہو، تو ایسی روایت کو سماع پر محمول کیا جائے گا ۔(تدریب الراوی ،ج1، ص212، دار طیبہ)

   علامہ عبد الرؤف مناوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :’’ومثاله من القول حكما لا تصريحا يقول الصحابي الذي لم يأخذ عن الإسرائيليات أي استقلالا أو بواسطة مما لا مجال للاجتهاد فيه‘‘ ترجمہ : صریح مرفوع  کو چھوڑ کر مرفوع حکمی کی مثال وہ حدیث ہے جس میں ایسا صحابی  کوئی بات کہے جو اسرائیلیات سے خود یا واسطےسے روایت نہ کرتا ہو اور اس معاملے میں اجتہاد نہ ہو سکتا ہو ۔ (الیواقیت والدرر ، ج2، ص178، مکتبۃ الرشد)

   علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :’’الصحابي الذي يكون كذلك إذا أخبر بما لا مجال للرأي والمجتهد فيه يكون للحديث حكم الرفع‘‘ ترجمہ : صحابی جب ایسی بات کی خبر دے جس میں اپنی رائے کا دخل نہ ہو اوروہ مسئلہ مجتہد فیہ نہ ہو، تو وہ حدیث حکماً مرفوع  ہوتی ہے ۔(شرح نخبۃ الفکر للقاری ، ص551، دار الارقم )

   علامہ سخاوی علیہ الرحمۃنقل فرماتے ہیں:’’إذا قال الصحابي قولا لا يقتضيه القياس فإنه محمول على المسند إلى النبي صلى اللہ عليه وسلم‘‘  ترجمہ: صحابی جب ایسی با ت کہے جس کا قیاس تقاضا نہ کرتا ہو ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر محمول ہے ۔(فتح المغیث  ، ج1، ص162، مکتبۃ السنہ)

   حدیث موقوف کی تعریف سے متعلق علامہ نووی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’الموقوف: وهو المروي عن الصحابة قولا لهم أو فعلا أو نحوه متصلا كان أو منقطعا‘‘ترجمہ: موقوف حدیث وہ ہے جو صحابہ سے قولا یا فعلا منقول ہو، ان کی سند متصل ہو یا منقطع۔(التقریب والتیسیر للنووی ، ص32، دار الکتاب العربی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم