Aab e Hayat Ki Haqeeqat Kya Hai ?

آبِ حیات کی حقیقت

مجیب:مولانا محمد علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2930

تاریخ اجراء: 26 محرم الحرام1446 ھ/02اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   آبِ حیات پینے سے بندہ مرتا نہیں ہے ،کیا یہ حقیقت ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بعض تفسیری روایات کی بنا پر علمائے کرام کا قول یہی ہے کہ آب حیات کا کوئی چشمہ ہے، اور اس کے پینے سے بندہ اللہ کے حکم سے قیامت تک  مرتا نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے  آب حیات پیا ، تو آپ علیہ السلام قیامت تک زندہ رہیں گے۔

   قرآن کریم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے﴿حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَةٍ وَّ وَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا۬ؕ-قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّاۤ اَنْ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنْ تَتَّخِذَ فِیْهِمْ حُسْنًاترجمہ کنز الایمان: یہاں تک کہ جب سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچا اُسے ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا پایا   اور وہاں   ایک قوم ملی   ہم نے فرمایا اے ذوالقرنین یا تو تو انہیں سزا دے یا اُن کے ساتھ بھلائی اختیار کر ۔(القرآن الکریم،پارہ16،سورۃ الکھف، آیت:86)

   اس آیت پاک کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں  ہے:”ذوالقرنین نے کتابوں میں دیکھا تھا کہ اولادِ سام میں سے ایک شخص چشمۂ حیات سے پانی پئے گا اور اس کو موت نہ آئے گی ، یہ دیکھ کروہ چشمۂ حیات کی طلب میں مغرب و مشرق کی طرف روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت خضر (علیہ السلام)بھی تھے۔ وہ تو چشمۂ حیات تک پہنچ گئے اور انہوں نے پی بھی لیا ۔مگر ذوالقرنین کے مقدر میں نہ تھا انہوں نے نہ پایا۔“(خزائن العرفان، پارہ 16، سورۃ الکہف ، صفحہ565،زیر آیت 86)

   شیخ الحدیث،علامہ عبدالمصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:” جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ آپ (یعنی حضرت خضر علیہ السلام)اب بھی زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے ،کیونکہ آپ(علیہ السلام) نے آب ِ حیات پی لیا ہے۔“ (عجائب القرآن مع غرائب القرآن،صفحہ163، مکتبۃ المدینۃ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم