40 Hadees Ummat Tak Pahunchne Ki Kya Fazilat Hai?

چالیس حدیثیں امت تک پہنچانے کی فضیلت

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Gul-2762

تاریخ اجراء:12جمادی الاخریٰ 1444ھ/05جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ چالیس احادیث یاد کرنے کی فضیلت جو احادیث میں آئی ہے، یہ صرف زبانی یاد کرنے اور عربی الفاظِ حدیث یاد کرنے کے ساتھ خاص ہے یا جو یاد کیے بغیر آگے پہنچا دے یا حدیث شریف کا ترجمہ سنا دے ، اسے بھی یہ فضیلت حاصل ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو میری اُمّت پر چالیس حدیثیں احکامِ دین کی حفظ کرے ،اسے اللہ عزوجل فقیہ اٹھائے گا اور قیامت کے دن میں اس کا شفیع اور گواہ ہوں گا۔  روایت میں چالیس حدیثیں یاد کرنے سے متعلق جو فضیلت  بیان کی گئی ہے،یہ ظاہری معنی پر نہیں، بلکہ حفظ کرنے سے مراد نقل کرنا اور امت تک پہنچانا ہے،اگرچہ حدیثیں زبانی یادہی  نہ کی ہو ں ۔  اس کی علت یہ بیان فرمائی ہے  کہ نقل و روایت کے ذریعے ہی مسلمان نفع اٹھائیں گے۔اسی طرح چالیس حدیثیں یادکرکے مسلمان کو سنانا،چھاپ کر ان میں تقسیم کرنا، ترجمہ یا شرح کرکے لوگوں کوسمجھانا،راویوں سے سن کر کتابی شکل میں جمع کرنا،سب ہی اس میں داخل ہیں۔

   مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:”حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور  صلی اﷲ علیہ  وسلم سے عرض کی گئی اس علم کی حد کیا ہے، جہاں انسان پہنچے تو عالم ہو؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”من حفظ على أمتي أربعين حديثا في أمر دينها بعثه اللہ فقيها وكنت له يوم القيامة شافعا وشهيدا“یعنی: جو میری اُمّت تک احکامِ دین  کی  چالیس حدیثیں پہنچائے ،  اسے اللہ عزوجل فقیہ اٹھائے گا اور قیامت کے دن میں اس کا شفیع اور گواہ ہوں گا۔  (مشكاة المصابيح ،جلد1،صفحہ 86،مطبوعہ بيروت)

   مرقاۃالمفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح اور لمعات التنقیح میں اس حدیثِ پاک کے تحت ہے(واللفظ للاول):”قال الإمام النووي: المراد بالحفظ هنا نقل الأحاديث الأربعين إلى المسلمين وإن لم يحفظها ولا عرف معناها، هذا حقيقة معناه وبه يحصل انتفاع المسلمين، لا يحفظها ما لم ينقل إليهم“ترجمہ:امام نووی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:یہاں احادیث یاد کرنے سے مراد مسلمانوں تک چالیس احادیث پہنچانا ہے، اگرچہ یاد نہ ہوں اور نہ ان کے معانی جانتا  ہو۔یہ اس فضیلت   کے معنی کی حقیقت ہےاور اسی ذریعے سے (یعنی مسلمانوں تک پہنچانے کے ذریعے سے)مسلمانوں کو نفع پہنچنےکا حصول ہوگا، نہ کہ صرف ان کویاد کرنا  جب تک ان حدیثوں کو مسلمانوں تک نہ پہنچائے ۔ (یعنی صرف یاد کرلینے  اور آگے نقل نہ کرنے سے مسلمانوں کو نفع نہیں پہنچےگا)۔(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ،جلد1،صفحہ 328،دار الفكر  بيروت)

   حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اس حدیث کے تحت   اشعۃ اللمعات میں لکھتے ہیں:”علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس اِرشاد سے مُراد و مقصود لوگوں تک چالیس اَحادیث کا پہنچانا ہے۔چاہے وہ اسے یاد نہ بھی ہوں اور اِن کا معنی بھی اِسے معلوم نہ ہو۔“ (اشعۃ اللمعات مترجم،جلد1،صفحہ517، مطبوعہ لاھور)

   مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃاس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:’’اس حدیث کے بہت پہلو ہیں:چالیس حدیثیں یادکرکے مسلمان کو سنانا،چھاپ کر ان میں تقسیم کرنا، ترجمہ یا شرح کرکے لوگوں کوسمجھانا،راویوں سے سن کر کتابی شکل میں جمع کرنا،سب ہی اس میں داخل ہیں۔یعنی جو کسی طرح دینی مسائل کی چالیس حدیثیں میری امت تک پہنچادے،تو قیامت میں اس کا حشر علمائے دین کے زمرے میں ہوگا اور میں اس کی خصوصی شفاعت اور اس کے ایمان اور تقویٰ کی خصوصی گواہی دوں گا ،ورنہ عمومی شفاعت اور گواہی تو ہرمسلمان کو نصیب ہوگی۔اسی حدیث کی بنا پر قریبًا تمام محدثین نے جہاں حدیثوں کے دفتر لکھے ،وہاں علیحدہ چہل حدیث جسے”اربعینیہ“کہتے ہیں، جمع کیں۔امام نووی اور شیخ عبدالحق دہلوی کی اربعینیات مشہور ہیں۔‘‘(مراٰۃ المناجیح، جلد1، صفحہ 221، مطبوعہ گجرات)

   فیض القدیر میں ہے:”(من حفظ على أمتی أربعين حديثا من سنتی) ونقلها إليهم(أدخلته يوم القيامة فی شفاعتی) فإن لم ينقلها إليهم لم يشمله هذا الوعد وإن حفظ عن ظهر قلب إذ المدار على نفع الأمة ولم یوجد “ترجمہ:جو شخص میری سنت پر مشتمل چالیس حدیثیں یاد کر کے میری امت تک پہنچائے ، میں قیامت کے دن اس کواپنی شفاعت میں داخل کروں گا۔ اگر دوسرے  لوگوں تک حدیث نہ پہنچائی ،تو یہ فضیلت حاصل نہیں ہوگی، اگرچہ حدیثیں زبانی یاد کر لی ہوں ،کیونکہ فضیلت کا مدار امت کے نفع پر ہے ،جو نہیں پایا گیا ۔  (فيض القدير،جلد6،صفحہ 118،المكتبة التجارية الكبرى، مصر)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم