3 Din Se Ziyada Qata Ta'alluqi Karne Ka Hukum

تین دن سے زائد قطع تعلقی کرنے کا حکم

مجیب: مولانا محمد بلال عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2551

تاریخ اجراء: 02رمضان المبارک1445 ھ/13مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا اس طرح کی حدیث   مبارکہ ہے کہ  جو شخص تین دن سے زائد   قطع   تعلقی کرے اور اس   حالت  میں  مرجائےتو  اس  کا  ٹھکانا جہنم میں ہوگا ؟ اور کیا اس شخص کی بخشش ہو سکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! یہ حدیث پاک  ہے،چنانچہ سنن ابی داؤد میں ہے” عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث، فمن هجر فوق ثلاث فمات دخل النار»“ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”مسلمان  کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑ دے، پھر جس نے ایسا کیا اور مرگیا تو جہنم میں گیا۔(سنن ابی داؤد،رقم الحدیث 4914،ج 4،ص 279، المكتبة العصرية، بيروت)

   باقی رہا یہ کہ ایسےشخص کی بخشش ہوسکتی ہے یانہیں؟ تواس کا جواب یہ ہے کہ:

   اس بات پر اہلِ سنت کا اِجماع ہے کہ مومن کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا،لہذا ایسا شخص سزا پاکر  جنت میں ضرور جائے گا اوریہ بھی  ہوسکتا ہےکہ  اللہ پاک سزا معاف فرمادے اور ڈائریکٹ جنت میں داخل فرمادے۔

   چنانچہ مذکورہ حدیث پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے” (دخل النار) : قال التوربشتي: أي استوجب دخول النار، فالواقع في الإثم كالواقع في العقوبة إن شاء عذبه وإن شاء غفر له“ترجمہ:(جہنم میں گیا) توربشتی نے فرمایا:یعنی جہنم میں داخل ہونے کا مستحق ہواکہ گناہ میں پڑنے والا،گویا سزا میں پڑنے والا ہے،اللہ عزوجل چاہے تو اسے عذاب دے ،چاہے تو اسے بخش دے۔(مرقاۃ المفاتیح،ج 8،ص 3152،دار الفکر،بیروت)

   مرآۃ المناجیح میں ہے:"یعنی ہجران کی سزا کا مستحق ہوگا،مسلمان بھائی سے عداوت دنیاوی آگ،حسدبغض کینہ یہ سب مختلف قسم کی آگ ہیں اور آخرت میں اس کی سزا وہ بھی آگ ہی ہے رب چاہے تو بخش دے چاہے تو سزا دے دے۔(مرآۃ المناجیح،ج 6،ص 413،قادری پبلشرز،لاہور)

   شرح عقائد نسفیہ میں ہے”اجماع الامۃ من عصر النبی علیہ السلام الی یومنا ھذا بالصلاۃ علی من مات من اھل القبلۃ من غیر توبۃ والدعاء والاستغفار لھم،مع العلم بارتکابھم الکبائر بعد الاتفاق علی ان ذالک لایجوز لغیر المؤمن“ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک امت کااس بات پر اجماع ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے جو شخص بغیر توبہ کے مر گیا تو اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے لئے دعا و اِستغفار بھی کی جائے گی اگرچہ اس کا گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہونا معلوم ہو حالانکہ اس بات پر پہلے ہی امت کا اتفاق ہے کہ مومن کے علاوہ کسی اور کے لئے نمازِ جنازہ اور دعا ء و استغفار جائز نہیں۔(شرح العقائد النسفیۃ،ص 255،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم