مجیب: مفتی
محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar-7651
تاریخ اجراء: 14 جمادی الاولی
1443ھ/19 دسمبر 2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ
متین اِس مسئلےکے بارے میں کہ اسلام کا دائرہ تیسیر
کیا ہے؟حدیثِ مبارک ”یسرواولاتعسروا وبشروا ولا تنفروا‘‘ ترجمہ:(دین
میں)آسانی پیدا کرو، سختی نہ کرو اور لوگوں کو خوشخبری
سناؤ، انہیں متنفِّر یعنی خود سے دور نہ کرو) کا درست مَحمل کیا ہے؟ کیا اِس سے مرادیہ ہے کہ سہولت
کے پیشِ نظر لوگوں کو اُن کی خواہشات کے مطابق چھوڑ دیا جائے
اور احکاماتِ شرعیہ ہی نہ بتائے جائیں یا اِن الفاظِ حدیث
کی مراد خاص اور محدود ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دینِ اسلام فطری اورعالمگیر دین ہے۔
اِس کے احکام میں لوگوں کے اَحوال و طبائع کا خیال رکھا گیا
ہے، اِسی لیے فرضیتِ احکام میں مکلَّفین کی حالت و استطاعت کی بہت رعایت رکھی گئی ہے،
یعنی مکلف ہونا استطاعت اور قدرت سے مشروط ہے۔اِسی طرح
ہمارا اسلام معاملاتِ زندگی کو دانشمندانہ ، آسان اور سہل طریقے سے سر
انجام دینے کا دَرْس دیتا ہے۔ دینِ اسلام میں آسانی، نرمی اور تیسیر
مسلسل دہرائے جانے والے اسباق ہیں۔
قرآن اور دائرہ ِتیسیر:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿یُرِیْدُ
اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ
الْعُسْرَ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور
تم پر دشواری نہیں چاہتا۔‘‘ (پارہ2،سورۃ
البقرۃ ، آیت185)
ایک اور جگہ فرمایا: ﴿لَا یُكَلِّفُ
اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’ اللہ کسی جان پر اس کی
طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے۔‘‘(پارہ3،سورۃ
البقرۃ ، آیت286)
ایک مقام پر ہے: ﴿وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ
فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’ اور تم پر دین
میں کچھ تنگی نہ رکھی۔(پارہ17،سورۃ
الحج، آیت78)
روزوں کے معاملے میں حکمِ تیسیر یوں
بیان کیا: ﴿وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ
عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ﴾ترجمہ
کنزالعرفان:’’ اور جو بیمارہو یا سفر میں ہو ،تو اتنے روزے اور
دنوں میں رکھے۔‘‘ (پارہ2،سورۃ
البقرۃ، آیت185)
پانی دستیاب نہ ہونے کی صورت میں سہولت کا حکم یوں دیا گیا: ﴿ وَ اِنْ كُنْتُمْ
مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ
الْغَآىٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا
صَعِیْدًا طَیِّبًا﴾ترجمہ کنزالعرفان:اور’’
اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی
قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتو ں سے ہم بستری کی
ہواور پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو۔‘‘ (پارہ5،
سورۃ النساء، آیت43)
اِسی حکم کو دوسری جگہ سورۃ المائدۃ
میں ذکر کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا: ﴿مَا یُرِیْدُ
اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ
تنگی رکھے۔‘‘ (پارہ6، سورۃ المائدۃ، آیت6)
ایک جگہ یوں فرمایا گیا: ﴿یُرِیْدُ
اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا
﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اللہ چاہتا ہے کہ تم پرآسانی
کرے اور آدمی کمزور بنایا گیا ہے۔‘‘ (پارہ5،سورۃ النساء، آیت28)
مذکورہ بالا آیات کے علاوہ دیگر بہت سی آیتیں
ہیں جن میں سہولت اور آسانی پر مبنی احکامات کو ذکر کیا
گیا ہے۔ اشارۃً چند احکامات درج ذیل ہیں۔
(1)حج کی فرضیت کو استطاعت
کی سہولت کے ساتھ مشروط کیا گیا۔
(2)خطاءً قتل ہونے کی صورت
میں حکمِ قصاص نہیں رکھا
گیا، بلکہ دیت مقرر کی
گئی، کیونکہ قاتِل نے عمداً
قتل نہیں کیا تھا، لہذا اُس کی جان بچائی گئی اور
دیت مقرر کی گئی۔
(3)کفارہِ ظہار میں
تیسیراً تین اختیارات دیے گئے۔ اولاً غلام کو
آزاد کرنا، ورنہ مسلسل ساٹھ روزے، ورنہ ساٹھ مساکین کو دو وقت کا کھانا
کھلانا۔
(4)کفارہِ یمین میں
بھی تیسیر یعنی نرمی کو رکھا
گیا۔
(5)مقروض کی تنگدستی اور
مجبوری کی بناء پر قرض دینے والے کو حکمِ تیسیر ورِفق(نرمی) دیا گیا۔
(6)اضطراری حالات میں ہمارا
دینِ فطرت وُسعت کا وسیع باب کھولتا ہے، جس کے احکامات ڈھکے چھپے
نہیں ہیں۔ بہت
سی ممنوعہ اشیاء کے بقدرِ ضرورت
استعمال کو جائز قرار دے دیتا ہے۔
(7)جس تدریجی انداز
میں شراب کو ممنوع کیا گیا، وہ اسلام کے اصولِ
تیسیر کی بڑی واضح دلیل ہے۔
احادیث اور دائرہ ِتیسیر!
بخاری شریف میں ہے:’’عن النبي صلى
اللہ عليه وسلم قال: إني لأقوم في الصلاة أريد أن أطول فيها فأسمع بكاء الصبي
فأتجوز في صلاتي كراهية أن أشق على أمه‘‘ ترجمہ:نبی
پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مروی ہے، آپ فرماتےہیں کہ میں نماز میں کھڑا ہوتاہوں اور
میری خواہش ہوتی ہے کہ نماز کو لمبا کروں، مگر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا
ہوں ،تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں، کیونکہ اِس بات کو برا سمجھتا ہوں
کہ اُس کی ماں کے لیے آزمائش
پیدا کروں۔(صحیح البخاري، جلد1، باب من
أخفّ الصلاة عندبکاء الصبي،صفحہ 98، مطبوعہ کراچی )
بخاری شریف میں ہی دوسری جگہ ہے: ’’عن
ابی مسعود الانصاری قال: قال رجل:یارسول اللہ لا اکاد ادرک
الصلاۃ مما یطول بنا فلان، فما رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی
موعظۃ اشد غضبا من یومئذ، فقال: ایھا الناس انکم منفرون فمن
صلی بالناس فلیخفف فان فیھم المریض والضعیف وذا
الحاجۃ‘‘ ترجمہ:حضرت ابو مسعود
انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے
نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی کہ یارسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! ہو سکتا ہے کہ میں
جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کر سکوں، کیونکہ فلاں شخص ہمیں بہت
طویل قراءت کے ساتھ نماز پڑھاتا ہے، حضرت ابو مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کہتے ہیں کہ میں نے
نصیحت کرنےکے لحاظ سے اُس دن سے زیادہ کبھی نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو
جلال میں نہیں دیکھا، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا:اےلوگو! تم اللہ کے بندوں کو دِین سے دور کرتے ہو، اب
جوشخص بھی لوگوں کو نماز پڑھائے
اُسے چاہیے کہ قراءت میں تخفیف کرے، کیونکہ نمازیوں
میں بیمار، کمزور جان اور ضرورت مند لوگ بھی ہوتے
ہیں۔ (صحیح البخاری،جلد1،
باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذا رای ما یکرہ،
صفحہ19، مطبوعہ کراچی)
ایک جگہ فرمایا:’’إن الدين یسر
، ولن يشاد الدين أحد إلا غلبه ‘‘ ترجمہ:بے شک دین
آسان ہے اور جو شخص بھی دین پر غلبہ حاصل کرنےکی کوشش کرے گا،
اُس پر دین غالب آ جائےگا۔(صحیح
البخاری، جلد1، کتاب الایمان،
صفحہ 17، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)
جب حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْهما کو یمن روانہ فرمانے لگے،تو انہیں یوں
ہدایات ارشاد فرمائی:’’يسرا ولا تعسرا، وبشرا ولا
تنفرا، وتطاوعا ولا تختلفا‘‘ ترجمہ:تم دونوں (وہاں جا کر
لوگوں کے لیے )آسانیاں
پیدا کرنا، انہیں تنگی میں نہ ڈالنا۔
خوشخبریاں دینا، متنفر نہ
کرنا۔ آپس میں ایک دوسرے کی معاونت کرنا اور آپس
میں اختلافِ رائےنہ کرنا۔ (صحیح
البخاری، جلد4، باب ما یکرہ
من التنازع، صفحہ 65، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)
مسلم شریف میں ہے:’’عن جابر أنه
قال: صلّى معاذ بن جبل الأنصاري لأصحابه العشاء، فطول
عليهم، فانصرف رجل منّا فصلّى، فأخبر معاذ عنه، فقال: إنه منافق. فلمّا بلغ ذلك
الرجل دخل على رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فأخبره ما قال معاذ، فقال له النبى
صلى اللہ عليه وسلم: أتريد أن تكون
فَتّانَاً يا معاذ! إذا أمّمت الناس فاقرأ بـ الشمس وضحاها،
و سبح اسم ربك الأعلى ، واقرأ باسم ربك،
والليل إذا يغشى‘‘ ترجمہ:حضرت
جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں
کہ حضرت معاذ بن جبل انصاری رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے
اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز لمبی پڑھائی، ہم میں سے ایک آدمی نے علیحدہ
نماز ادا کی، حضرت معاذ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو
اُس کے بارےمیں خبر دی گئی ،تو انہوں نے کہا کہ وہ منافق
ہے، جب اُس آدمی کو خبر پہنچی،
تو اس نے رسول اللہ صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوکرحضرت معاذ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی
بات بتائی، تو نبی پاک صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمایا: کیا تم لوگوں کو
آزمائش میں ڈالنا چاہتے ہو؟ لہذا اے
معاذ !جب تم لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو ”الشَّمْسِ
وَضُحَاهَا “، ” سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی“ ،” اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ“
اور ”وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَی“کے
ساتھ نماز پڑھا کرو۔ (صحیح المسلم،
جلد1، باب القراءۃ فی العشاء، صفحہ187، مطبوعہ کراچی)
مسندِ احمد میں ہے:’’إن عائشة،
قالت: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يومئذ:لتعلم يهود أن في دیننا
فسحۃ، إني أرسلت بحنيفية سمحة‘‘ ترجمہ:حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ ایک روز نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
فرمایا:یہودی جان لیں کہ ہمارے دین میں وُسْعت
ہے، بے شک میں حنیف اور آسانی والے دین کے ساتھ
بھیجا گیا ہوں۔(مسندِ
احمد، جلد41، صفحہ349، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)
سوال
میں ذکر کردہ حدیث اور اُس کی مراد:
جس حدیثِ مبارک کو سوال میں
ذکر کیا گیا، اُس کی مراد
خاص اور محدود ہے، جسے شارِحینِ حدیث اور کثیر علمائے دین
نے ذکر کیا ہے، حدیثِ بخاری پر تفصیلی کلام
دیگر شروحاتِ بخاری کی بنسبت شرح ابنِ بطَّال میں تفصیلی
ہے، جسے نیچے بیان کیا جائے گا۔ الغرض اُس حدیث سے معاذاللہ یہ ہر گز
مراد نہیں ہے کہ فرائض وواجبات میں آسانی کے پیشِ نظر چھوٹ دے دی
جائے اور جس کا جب دل کرے وہ اپنے فاسِد گمان کے مطابق سہولت کی گردان پڑھتے
ہوئے فرائض اور واجبات ترک کرنے کی جرأت
کرے، کیونکہ دین میں کتنی
سختی اور کتنی نرمی ہے، یہ سب سے زیادہ اللہ کے
رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جانتے ہیں اور رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے
فیضان سے فقہائے کرام جانتے ہیں۔ اب اگر بنظرِ
ایمانی دیکھا جائے تو ” یسرواولاتعسروا “ والے فرمان کی دوسری جانِب
سینکڑوں احادیث کا وہ مجموعہ بھی نظر آئےگا کہ جن میں خود
”یسرواولاتعسروا “ فرما کر رحمت و شفقت کا
اظہار فرمانے والے ، رحمت ِ دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
عبادات اور کثیر احکامات کو لازم قرار دیا، بلکہ اُن کے عملی
طریقے اور تاکیدات وترہیبات
کو بھی بیان فرمایا، لہٰذا حدیث کی یہ
مراد سمجھنا کہ فرائض وواجبات میں من مرضی کی جائے تو ایسی سوچ کے خلافِ دینِ
اور خلافِ منشائے ربانی ہونے میں کوئی شک نہیں۔
حدیثِ مبارک میں آسانی پیدا کرنے اور
تنگی سے بچانے کی مراد یہ ہے کہ اگر دینِ اسلام کسی
معاملے میں رخصت اور سہولت مہیا کرتا ہے، یا کرنے اور نہ کرنے، ہر دو طرح کا اختیار
دیتا ہے، تو ایسے معاملات میں سختی نہ کی جائے،
بلکہ موقع محل دیکھ کر مناسب انداز میں حکم ِ شرع بیان کر
دیا جائے، مثلاً اشراق وچاشت اور دیگر نوافل، فرض ولازم نہیں ہیں،لہذا لوگوں کو اِس
نوعیت کے احکام کا سختی سے پابند بنانے کی کوشش نہ کی
جائے، ورنہ وہ دین سے دور ہو جائیں گے۔ ہاں نوافِل کی
محبت پیدا کرنے کے لیے فضائل بیان کرتے رہا جائے، تا کہ آہستہ
آہستہ وہ نوافِل بھی پڑھنے
لگیں کہ بلاشبہ نوافِل اللہ کے قُرب کا بہترین ذریعہ ہیں۔
اِسی طرح مرض اور مریض کی صورتِ حال کو سامنے
رکھتے ہوئے ہمارا دینِ اسلام نماز، روزہ اور دیگر کئی معاملات
میں رخصت فراہم کرتا ہے، جس کے تفصیلی احکامات قرآن وحدیث
اور کتبِ فقہ میں موجود ہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص مریض
ہو اور شریعت میں اُس شخص کے لیے رخصت کی گنجائش موجود ہو
،تو اُسے شریعت کی بیان کردہ رخصت وسہولت بیان کی
جائے اور تنگی میں نہ ڈالا جائے، مثلاً ایک شخص کسی
بھی طرح کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادِر نہیں ہے، تو اُسے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی رخصت
بتائی جائے۔ بیٹھ کر پڑھنے سے عاجِز کو لیٹ کر اشاروں سے
پڑھنے کا مسئلہ بتایا جائے۔
الغرض ” یسروا “ یعنی لوگوں کو سہولت دینے کا
دائرہ صرف اُسی قدر اور اُن
ہی معاملات میں ہے کہ جن
میں” شریعت“ ہمیں سہولت مہیا کرتی ہے اور ” لاتعسروا “ یعنی لوگوں کو تنگی
میں نہ ڈالنے کا حکم بھی اُن
چیزوں کے بارے میں ہے کہ جن میں تنگی اور سہولت برابر ہے یا
وہاں شریعت سہولت ورخصت مہیا کر دیتی ہے ، تو وہاں سہولت
کے مطابق حکم دینے اور تنگی سے بچانے کا حکم ہے۔جہاں تک
فرائض اور دیگر تمام ضروری
شرعی احکامات کا معاملہ ہے، تو وہ اپنی جگہ لازم اور ضروری
ہیں، کیونکہ یہ اُسی مہربان خدا کے لازم کیے ہوئے
احکامات ہیں کہ جو مخلوق پر
آسانی چاہنے والا، طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنے والا اور دین
میں کسی بھی طرح کی تنگی نہ رکھنے والا ہے۔
سوال میں ذکر کی گئی حدیث
کی مراد اور مَحمل کیا ہے؟ اِس کی وضاحت کرتے ہوئے ابو الحسن ابنِ بطَّال رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:449ھ/ 1057ء) لکھتے ہیں:’’قال
الطبرى: ومعنى قوله:(يسروا ولا تعسروا) فيما كان من نوافل الخير دون ماكان فرضا من
اللہ، وفيما خفف اللہ عمله من فرائضه فى حال العذر كالصلاة قاعدا فى حال العجز عن
القيام، وكالإفطار فى رمضان فى السفر والمرض وشبه ذلك فيما رخص اللہ فيه لعباده
وأمر بالتيسير فى النوافل والإتيان بما لم يكن شاقا ولافادحا خشية الملل لها
ورفها، وذلك أن أفضل العمل إلى اللہ أدومه وإن قل، وقال عليه السلام لبعض أصحابه:
(لا تكن كفلان كان يقوم الليل فتركه) قال غير الطبرى: ومن تيسره عليه السلام أنه
لم يعنف البائل فى المسجد ورفق به ۔۔۔قال عليه السلام: (هلك المتنطعون)
وبلغ النبى أن قوما أرادوا أن يختصوا وحرموا الطيبات واللحم على أنفسهم فقام النبى
عليه السلام وأوعد في ذلك أشد الوعيد، وقال: (لم أبعث بالرهبانية وإن خير الدين
عند اللہ الحنفية السمحة، وإن أهل الكتاب هلكوا بالتشديد شدوا فشدد
عليهم)۔۔۔ وأما اجتهاده عليه السلام فى عبادة ربه فإن اللہ كان خصه من القوة بما لم يخص به
غيره۔۔۔فأما سائر شهور السنة فإنه كان يصوم بعضه ويفطر بعضه،
ويقوم بعض الليل وينام بعضه، وكان إذا عمل عملا داوم عليه، فأحق من اقتدى به رسول اللہ
الذى اصطفاه اللہ لرسالته وانتخبه لوحيه‘‘ ترجمہ:امام طبری رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ ” يسروا ولا تعسروا “ کا معنی یہ
ہے کہ نفلی کاموں میں آسانی
پیدا کرو اور تنگی نہ کرو، یعنی وہ کام ہرگز مراد نہیں کہ جو اللہ تعالیٰ
کی جانب سے فرض ولازم ہیں۔(”
يسروا ولا تعسروا “ کا معنی یہ بھی ہے کہ) اُن فرض کاموں میں بھی
آسانی پیدا کرو کہ کہ جن کے
بجالانے میں اللہ تعالیٰ نے تخفیف اور آسانی کا حکم
دیا ہے، مثلاً کھڑے ہونے سے عاجز ہونے کی صورت میں بیٹھ
کر نماز پڑھنا، حالتِ سفر یا حالت مرض میں روزہ چھوڑنا اور اِس جیسے
دیگر رخصت پر مشتمل فرائض وواجبات کہ جن میں اللہ تعالیٰ
نے اپنے بندوں کو رخصت اور آسانی مہیا کی ہے۔(” يسروا
ولا تعسروا “کی مراد میں سے یہ بھی ہے کہ ) نفلی کاموں میں آسانی اور
اُنہیں اُس طریقے سے بجا لانے کا حکم دینا کہ جو مشقت اور دِل
اُچاٹ کرنے والا نہ ہو،تا کہ اُن نوافل کی
ادائیگی میں دل اکتاہٹ سے بچے اور بخوشی کرتا رہے۔ یہ یعنی
سہولت مہیا کرنے کا حکم اِسی لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں
افضل عمل وہ ہے کہ جو اگرچہ تھوڑا ہو،مگر ہمیشہ ہو۔ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
بھی اپنے بعض اصحاب سے یہی فرمایا تھاکہ اُس شخص کی
طرح نہ ہو جانا کہ جس نے قیام اللیل شروع کیا، مگر پھر چھوڑ دیا۔امام
طبری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے علاوہ دیگر علماء نے فرمایا: نبی پاک کے نرمی
اختیار کرنے کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ آپ نے مسجد میں
پیشاب کرنے والے اعرابی كے
ساتھ سختی نہیں بَرتی، بلکہ نرم اور مشفقانہ رویہ اختیار
فرمایا۔ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
فرمایا:حد سے بڑھنے اور غلو اختیار کرنے والے ہلاک ہو گئے۔ یونہی
نبیِ رحمت صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ
خود کو قوتِ جماع سے محروم کرنے، پاکیزہ
چیزوں اور گوشت کو خود پر حرام کر لینے
کا ارادہ رکھتے ہیں۔(یہ خبر پہنچتے ہی) نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کھڑے
ہوئے اور اِس معاملے پر شدید وعیدیں
بیان کیں اور فرمایا:
مجھے رہبانیت یعنی کلی طور پر دنیا سےلا تعلقی
اختیار کرنے کے لیے نہیں
بھیجا گیا۔ بےشک اللہ کے ہاں سب سے بہتردین وہ ہے،
جو باطل سے جدا اور آسان شرعی احکامات پر مشتمل
ہو۔بے شک اہلِ کتاب احکام میں بے جا سختیاں پیدا کرنے کے
سبب ہلاک ہوئے، چنانچہ خدا کی جانب سے اُن پر بھی سختی کر دی
گئی۔ جہاں تک بذاتِ خود نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا
عبادات کی ادائیگی میں خوب کوشش فرمانے کا معاملہ ہے ، تو وہ صرف اِس لیے کہ اللہ
تعالیٰ نے اُنہیں خصوصی قوت عطا فرمائی تھی،
جو کسی اور کو نہیں دی گئی۔ البتہ روزوں کے متعلق
سال بھر کا معاملہ یہ تھا کہ کبھی
کبھار روزہ رکھتے اور بعض اوقات چھوڑ دیتے، یونہی رات کا کچھ
حصہ عبادت کرتے اور کچھ دیر آرام فرمایا کرتے تھے۔ آپ جب بھی
کسی عمل کو شروع فرماتے ،تو اُس پر مداومت اختیار کرتے۔ خلاصہ یہ
ہے کہ سب سے بڑھ کر جس ہستی کی اتباع کا حق ہے، وہ ہستی اللہ کے
رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ مبارک ہے کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے
اپنی رسالت اور وَحی کے لیے چن لیا ہے۔ (شرح صحیح البخاری لابنِ بطَّال، جلد9،
صفحہ 302،مطبوعہ مکتبۃ الرشد، ریاض)
فقیہِ اعظم ہند، مفتی شریف الحق امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ
وفات: 1421ھ/2000ء) ”بشروا
ولا تنفروا “ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے
ہیں:’’بشارت کے معنی اچھی خبر دینا۔ مطلب یہ
ہے کہ جو لوگ نومسلم ہیں یا جو بچے قریب البلوغ ہیں،
انہیں دین کا رفتہ رفتہ پابند بناؤ۔ والیانِ مملکت اور
حکام پر لازم ہے کہ لوگوں پر شفقت ومہربانی رکھیں، اُن پر اُن
کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالیں۔ لوگوں کو اللہ کی
رحمت، اُس کے فضل وکرم کی امید دلائیں،
لوگوں کے سامنے اُس کے وسعتِ کرم ورحم کو
بیان کریں، صرف اُس کی شانِ قہر وجلال نہ بیان
کریں، ایسا برتاؤ نہ کریں کہ لوگ بھڑک اٹھیں۔‘‘ (نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری ،
جلد 1،صفحہ 421،مطبوعہ فرید بک
سٹال،لا ھور )
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟