مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Pin-7182
تاریخ اجراء:20شعبان المعظم1444ھ/13مارچ 2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے
ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ
سوشل میڈیا پر ایک حدیث شیئر کی جارہی
ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب
آدھا شعبان گزر جائے، تو روزے نہ رکھو۔‘‘ (سنن ابو داؤد/2337) تو کیا
نصف شعبان کے بعد نفلی روزے رکھنا منع ہیں؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب
جاننے سے قبل تمہیداً یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ
فرائض و واجبات کی ادائیگی کے ساتھ نفلی عبادت کی
کثرت بلاشبہ باعثِ حصولِ برکات اور رب عزوجل کے قرب کا بہترین
ذریعہ ہےبالخصوص روزہ، تو اس کی جزا رب عزوجل خود عطا فرمائے گا۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
بکثرت نفلی روزوں کا اہتمام فرمانا ثابت ہے،خاص طور پر ماہِ شعبان میں
اس قدر روزے رکھتے، گویا پورا ماہ ہی روزے میں گزرتا ،حتی
کہ رمضان آ جاتا،نیز رمضان کے بعد شعبان کے روزوں کو افضل قرار دیا
گیا ہے، لیکن دوسری طرف
ہمیں نفلی عبادات کے ساتھ دیگر حقوق کا خیال رکھنے
کی بھی تلقین فرمائی گئی ہے اور وہ یوں کہ
اگر نفلی روزے رکھنے کی وجہ سے حقوق واجبہ و مستحبہ (مثلاً:نماز، فرض
روزوں، رزقِ حلال کا حصول، والدین کی خدمت، اولاد کی پرورش
وغیرہ)میں کمی کی صورت نہ بنے ، تو نفلی روزے رکھنے
میں کوئی حرج نہیں، البتہ جو شخص کمزور ہو، بکثرت روزے رکھنا اس
کے لیے دیگر حقوق کی ادائیگی میں کمی
کا باعث بنے، تو اسے چاہئے کہ نفلی روزے رکھنے کی ایسی
صورت اپنائے، جس سے بقیہ حقوق میں کمی واقع نہ ہو۔
اب
سوال
میں ذکر کردہ روایت میں جو روزہ رکھنے سے منع فرمایا
گیا، یہ ممانعت مطلقاً ہرشخص کے لیے نہیں، بلکہ اسی
کے لیےہے،جو بکثرت روزے رکھنے سے کمزور ہو جائے اور یہ کمزوری
رمضان کے فرض روزوں پر اثر انداز ہو، ورنہ جو طاقت رکھتا ہے، وہ نصف شعبان کے بعد
بھی روزے رکھ سکتا ہے،جیسا کہ ممانعت والی یہ حدیث
بیان کرنے والے صحابی حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
خود شعبان کے نصف ثانی میں روزے رکھا کرتے تھے۔
روزے کے فضائل مع شعبان کے
روزں سے متعلق روایات:
نفلی عبادت کے متعلق بخاری
شریف میں حدیث قدسی ہے، اللہ عزوجل
ارشاد فرماتا ہے:’’لا یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل
حتی احببتہ‘‘ ترجمہ: میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے
ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے، حتی کہ میں اسے اپنا محبوب
بنا لیتا ہوں ۔(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب
التواضع، جلد 2، صفحہ 963، مطبوعہ
کراچی)
روزے
کی جزا اللہ عزوجل خود عطا فرمائے گا۔ چنانچہ مسلم شریف میں حدیث پاک ہے، نبی
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا:’’کل عمل ابن آدم بضاعف الحسنۃ عشر
امثالھا الی سبعمائۃ ضعف، قال اللہ عزوجل: الا الصوم، فانہ لی وانا
اجزی بہ، یدع شھوتہ وطعامہ من اجلی، للصائم فرحتان: فرحۃ عند
فطرۃ وفرحۃ عند لقاء ربہ‘‘ ترجمہ:
ابن آدم کے ہر عمل کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے، اللہ عزوجل نے فرمایا: سوائے روزے کے کہ روزہ میرے
لیے ہے اور اس کی جزا میں دوں گا، بندہ اپنی خواہش اور کھانا
میرے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں
ہیں: ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔
(صحیح المسلم، کتاب الصیام، باب فضل
الصیام، جلد 1، صفحہ 363، مطبوعہ کراچی)
رمضان
کے بعد شعبان کے روزے افضل ہیں۔ جامع ترمذی میں ہے: ’’سئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ای الصوم افضل بعد
رمضان؟ فقال: شعبان لتعظیم رمضان ‘‘ ترجمہ: نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہیں؟ ارشاد
فرمایا: شعبان ( کے روزے) رمضان کی تعظیم کے لیے۔(جامع ترمذی، کتاب الزکوۃ، باب ما جاء فی
فضل الصدقہ، جلد 2، صفحہ 45، مطبوعہ بیروت)
ماہِ
شعبان میں حضور علیہ السلام سے بکثرت روزے رکھنا منقول ہے۔ بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں: ’’ لم يكن النبي صلى اللہ عليه وسلم يصوم شهرا اكثر
من شعبان، فانه كان يصوم شعبان كله ‘‘ ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم شعبان سے زیادہ اور کسی مہینے میں روزے
نہیں رکھتے تھے، (گویا) پورے شعبان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزے سے رہتے۔(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب صوم شعبان، جلد 1، صفحہ 264،مطبوعہ
کراچی)
سنن
ابن ماجہ میں حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنھا سے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
روزوں کے متعلق سوال ہوا، تو فرمایا: ’’کان یصوم شعبان کلہ حتی یصلہ برمضان ‘‘ ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گویا) مکمل شعبان کے روزے رکھتے تھے حتی
کہ رمضان سے ملا دیتے۔ (سنن ابن ماجہ،
کتاب الصیام، باب ما جاء فی وصال شعبان برمضان، صفحہ 119، مطبوعہ
کراچی)
ممانعت والی حدیث کا عربی متن مع ترجمہ:
سوال
میں ذکر کردہ روایت حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا: ’’اذا انتصف شعبان، فلا تصوموا‘‘ ترجمہ: جب شعبان آدھا ہو جائے، تو روزے نہ رکھو۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصیام، جلد 1، صفحہ 339، مطبوعہ لاھور)
مسند
امام احمد بن حنبل میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں:’’اذا کان النصف من شعبان، فامسکوا عن الصوم حتی یکون
رمضان‘‘ ترجمہ: جب شعبان کا درمیان آ جائے، تو روزہ
رکھنے سے رُک جاؤ ،حتی کہ رمضان آ جائے۔(مسند احمد بن حنبل، جلد 15، صفحہ 441، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)
ان احادیث طیبہ کا محمل:
یہ
ممانعت ان افراد کے لیے ہے، جنہیں بکثرت روزہ رکھنے سے اندیشۂ
ضعف ہو، جو رمضان کے فرض روزوں میں رکاوٹ کا باعث بنے۔
امام
اجل امام ابو جعفر طحاوی رحمۃ اللہ علیہ ممانعت
والی روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’ ان النهي الذي كان من رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم في حديث
ابي هريرة رضي اللہ عنه ۔۔ لم يكن الا على الاشفاق منه على صوام رمضان،
لا لمعنى غير ذلك وكذلك نامر من كان الصوم بقرب رمضان يدخله به ضعف يمنعه من صوم رمضان؛
ان لا يصوم حتى يصوم رمضان، لان صوم رمضان اولى به من صوم ما ليس عليه صومه‘‘ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی
روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی
جس نہی کا ذکر ہے،۔۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان
کا روزہ رکھنے والوں پر (کمزوری کا) خوف محسوس کیا، (لہذا یہ ممانعت)کسی
اور وجہ سے نہیں اور اسی طرح ہم بھی اس شخص کو جو رمضان کے قریب
روزہ رکھنے کی وجہ سے کمزور ہو جاتاہے، حکم دیتے ہیں کہ رمضان تک
روزہ نہ رکھے، کیونکہ رمضان کا روزہ اُس روزے سے افضل ہے، جو اس پر فرض نہیں۔(شرح معانی الآثار، کتاب الصیام، باب الصوم بعد
النصف من شعبان الی رمضان، جلد 1، صفحہ 341، مطبوعہ لاھور)
محدث
کبیر علامہ ملا علی القاری حنفی رحمۃ
اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’ والنهي للتنزيه، رحمة على الامة ان يضعفوا عن حق القيام بصيام رمضان۔۔۔
قال القاضي: المقصود استجمام من لا يقوى على تتابع الصيام فاستحب الافطار كما استحب
افطاره عرفة، ليتقوى على الدعاء، فاما من قدر فلا نهي له ولذلك جمع النبي صلى اللہ
عليه وسلم بين الشهرين في الصوم ‘‘ ترجمہ: یہ
ممانعت ناپسندیدہ عمل سے بچنے کے لیے ہے، ( اس حکم میں) امت پر شفقت
ہے کہ ان روزوں کی وجہ سے رمضان کے روزے رکھنے میں کمزوری محسوس
ہوگی،۔۔ قاضی نے کہا: اس سے مقصود ایسے شخص کو آرام
دینا ہے ،جو لگاتار روزے رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، پس اس کے لیے
روزہ نہ رکھنا مستحب ہے، جیسا کہ یومِ عرفہ میں افطار مستحب ہے تاکہ
ذکر و دعا میں تقویت ملے،بہر حال جو قدرت رکھتا ہے، تو اس کے لیے
ممانعت نہیں ہے اور اسی وجہ سے
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے
روزہ رکھنے میں دو مہینوں کو جمع
فرمایا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب
الصوم، جلد 4، صفحہ 409، مطبوعہ کوئٹہ)
نزہۃ
القاری میں ہے:’’ شعبان میں جسے قوت ہو وہ زیادہ سے زیادہ
روزہ رکھے۔ البتہ جو کمزور ہو وہ روزہ نہ رکھے، کیونکہ اس سے رمضان کے
روزوں پر اثر پڑے گا، یہی محمل ہے ان احادیث کا جن میں فرمایا
گیا کہ نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو۔‘‘(نزھۃ القاری، جلد 3، صفحہ 380، فرید بک اسٹال، لاھور)
حضرت
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا
اپنا عمل بیان کرتے ہوئے علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:’’ ان ابا هريرة كان يصوم في النصف الثاني من شعبان ‘‘ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
شعبان کے نصف ثانی میں روزے رکھا کرتے تھے۔(عمدۃ القاری، کتاب الصوم،جلد 11، صفحہ 85، مطبوعہ
بیروت)
سوشل میڈیا سے وابستہ اَفراد کے لیے پیغام:
کوئی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے
سوشل میڈیا ایک وسیع پلیٹ فارم ہے، چونکہ اس ذریعہ
سے بات عوام و خواص سبھی تک پہنچتی ہے، تو اس پلیٹ فارم پر کام کرنے
والوں کی ذمہ داری بھی
اسی قدر بڑھ جاتی ہے، بالخصوص دینی معاملات کی آگاہی
فراہم کرنے کے لیے درست نیت کے
ساتھ اس کے شرعی، اخلاقی اور معاشرتی تقاضوں کو پورا کرنا نہایت
ضروری ہے، ورنہ کئی بار کما حقہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے، الٹا غلط
فہمی کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ اب سوال میں ذکر کردہ حدیث
پاک میں روزوں کی ممانعت خاص شخص کے لیے تھی، تو اگر اسی
حدیث کے تحت کسی معتبر حوالہ سے کچھ تشریحی کلمات بھی
نقل کر دئیے جاتے، تو حدیث پاک
بیان کرنے کے دنیاوی و اخروی فوائد کے ساتھ شریعت اسلامیہ
کے سنہری اصول ( میانہ روی) کا پرچار بھی ہو جاتا اور کسی
کو غلط فہمی بھی نہ ہوتی، لہذا دیگر شعبوں کی طرح سوشل میڈیا
سے وابستہ افراد کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے امور ماہر و معتمد علماء و مفتیان
کرام کی زیر نگرانی سر انجام دیں، تاکہ اپنی ذمہ داری
سے بخوبی سبکدوش ہو سکیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟