Umrah Karne Ki Mannat Mani To Kya Is Ko Poora Karna Lazim Hai?

عمرہ کرنے کی منت مانی، تو کیا اس کو پورا کرنا لازم ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD -9076

تاریخ اجراء:25صفر المظفر1445ھ/31اگست2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ ایک شخص نے منت مانی   کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا، تو میں عمرہ کروں گا، اب اس کا کام ہو چکا ہے، تو کیا اس پر شرعاً عمرہ کرنا لازم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کسی شخص نے یوں منت مانی کہ" اگر  میرا فلاں کام ہو گیا، تو میں عمرہ کروں گا"، تو ایسی منت، منتِ شرعی ہے جس کو پورا کرنا لازم ہے۔

   اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ منت کے لازم ہونے کی شرائط میں سے  یہ بھی ہے  کہ جس چیز کی منت مانی گئی ہو، وہ عبادت مقصودہ ہو اوراس کی جنس میں سے کوئی چیز فرض یا واجب ہو،چونکہ عمرہ کرنا عبادت مقصودہ ہے اور اس کی جنس سے فرض حج کی ادائیگی بھی موجود ہے، لہٰذا شخصِ مذکور پر عمرہ کرنا لازم ہے۔

   منت کے لازم ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے امام حسن بن عمار شُرُنبلالی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1069ھ/1658ء) لکھتے ہیں:(اذا نذر شیئا لزمہ الوفاء بہ اذا اجتمع فیہ) ای المنذور (ثلاثۃ شروط) احدھا (ان یکون من جنسہ واجب  )۔۔۔(و) الثانی(ان يكون مقصودا) لذاتہ ترجمہ :جب کوئی شخص کسی شے کی نذر (منت ) مانے ،تو اس منت کوپورا  کرنا لازم ہے، جبکہ اس منت والے کام میں تین شرائط پائی جائیں :ان میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ اس کی جنس سے کوئی کام شرعاً واجب ہو ۔۔۔اور دوسری  شرط یہ ہے  کہ وہ بذات خود عبادت مقصودہ ہو۔(نور الایضاح مع مراقی الفلاح ،  صفحہ351-350، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   عمرہ کی منت ، منتِ شرعی ہے جس کو پورا کرنا لازم ہے، جیسا کہ شمس الائمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:483ھ/1090ء) لکھتے ہیں:”ولو جعل عليه حجة او عمرة او صوما او صلاة او صدقة او ما اشبه ذلك مما هو طاعة ان فعل كذا ففعل لزمه ذلك الذی جعله على نفسه ولم يجب كفارة اليمين فيه في ظاهر الرواية عندنا ترجمہ:اگر کسی شخص نے (منت کے ذریعہ) حج، عمرہ، روزہ ، نماز، صدقہ یا اس کی مثل عبادات  میں سے کوئی چیز اپنے اوپر لازم کر لی(یہ کہہ کر) کہ اگر وہ فلاں کام کرے گا، پھر اس نے وہ کام کر لیا، تو  جو اس نے اپنی ذات پر لازم کیا تھا، اُس کا کرنا ضروری ہوگا اور ظاہر الروایہ کے مطابق  ہمارے نزدیک  اس صورت میں قسم کا کفارہ   بھی واجب نہیں ہوگا۔(المبسوط، جلد8، صفحہ135، مطبوعہ  مطبعة السعادہ،  مصر)

   ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:”يصح النذر بالصلاة والصوم والحج والعمرة والاحرام بهما والعتق والبدنة والهدی والاعتكاف ونحو ذلك، لانها قرب مقصودة“ترجمہ: نماز، روزہ، حج، عمرہ، ان دونوں کے احرام ، عتق، بدنہ، ہدی اور اعتکاف وغیرہ کی منت ماننا  درست ہے، کیونکہ یہ قربتِ مقصودہ ہیں۔(بدا ئع الصنائع، جلد5، صفحہ82،مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بیروت)

   اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے۔(الفتاوى الھندیۃ، كتاب الایمان، جلد2،  صفحہ65،مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:”اگر (کسی کام کے کرنے کو) ایسی چیز پر معلق کیا کہ اس   کے ہونے  کی خواہش  ہے، مثلاً:اگر میرا لڑکا تندرست ہوجائے،  یا  پردیس سے آجائے ، یا میں روزگار سے لگ جاؤں، تو اتنے  روزے  رکھوں گایا اتنا خیرات کروں گا، ایسی صورت میں    جب  شرط   پائی گئی، یعنی بیمار اچھا ہوگیا،  یا لڑکا پردیس سے آگیا ، یا روزگار لگ گیا، تو  اتنے روزے   رکھنا  یا خیرات کرنا ضرور ہے، یہ نہیں   ہوسکتا کہ  یہ کام نہ کرے   اور اس کے عوض  میں کفارہ دیدے۔“(بھارِ شریعت ،  جلد2، حصہ 9، صفحہ314، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم