Tum Nazar Na Mano Wali Hadees Ka Matlab Kya Hai ?

تم نذر نہ مانو کیونکہ نذر سے تقدیر کو نہیں بدلا جاسکتا اس حدیث کا مطلب

مجیب: مولانا فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1011

تاریخ اجراء: 29صفرا لمظفر1445 ھ/16ستمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میں نے ایک حدیث سنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا فرمان ہے:” تم نذر نہ مانو کیونکہ نذر سے تقدیر کو نہیں بدلا جاسکتا اس کے ذریعے تو صرف بخیل ہی سے مال نکلوایا جاتا ہے۔“( صحیح مسلم حدیث نمبر 4241 )۔ اس حدیث کا کیا مطلب ہے ؟ اور نذر کیا چیز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نذر،  منت کو کہا جاتا ہے اور نذرِ شرعی کا جواز قرآنی آیات اور کئی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔

   اللہ پاک فرماتا ہے :” یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًایعنی: نیک لوگ وہ ہیں جو اپنی منت پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی پھیلی ہوئی ہے ۔

   بخاری شریف میں ہے :”عن عائشہ رضی اللہ عنھا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : من  نذر ان یطیع اللہ فلیطعہ ، ومن نذر ان یعصیہ فلا یعصہ“یعنی: ام المومنین حضرت  عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ  وسلم نے فرمایا :جو یہ منت مانے کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اس کی اطاعت کرے اور جواللہ عزوجل کی نافرمانی کرنے کی منت مانے تو اس منت کو پورا نہ کرے ۔(صحیح بخاری ،صفحہ 1658، مطبوعہ  دار ابن کثیر )

   علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں :”فیہ دلیل علی ان من نذر طاعۃ یلزمہ الوفاء بہ “یعنی : حدیث پاک میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص کسی نیک کام کی منت مانے تو اس کو پورا کرنا اس پر لازم ہے “۔(مرقات المفاتیح ،جلد6،صفحہ 544،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت )

    رہی یہ بات کہ سوال میں مذکور حدیث شریف کا کیا مطلب ہے تو اس کے متعلق حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” یعنی (1)بات بات پر نذر مان لینے کے عادی نہ بنو کہ پھر نذر پوراکرنا مشکل و بھاری معلوم ہوتا ہے۔ (2) یا نذر میں یہ اعتقاد نہ رکھو کہ نذر سے ارادۂ الٰہی و حکم ربانی بدل جاتا ہے کہ یہ عقیدہ غلط ہے۔ (3) یا صدقہ و خیرات صرف نذر کی صورت میں ہی نہ کیا کروکہ جب کوئی(کام) اٹکا تو نذر مانی اور کام نکل جانے پر خیرات کی بلکہ یوں ہی صدقہ کرنے کی بھی عادت ڈالو۔ لہذا یہ نذر سے ممانعت نہیں بلکہ ان چیزوں سے ممانعت ہے۔ لہذا یہ حدیث ان آیات کے خلاف نہیں جن میں نذر پوری کرنے والوں کی تعریف کی گئی ہے،رب تعالیٰ فرماتاہے:”یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذْرِ“ (ترجمہ: اپنی منتیں  پوری کرتے ہیں۔)اورحضرت حنہ کا واقعہ بیان فرمایا ہے:اِنِّیۡ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطْنِیۡ“ (ترجمہ: میں تیرے لئے نذر مانتی ہو کہ میرے پیٹ میں جواولاد ہے۔) اور حضرت مریم کو نذر کا حکم دینا بیان فرماتا ہے: ”اِنِّیۡ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا“ (ترجمہ:میں نے آج رحمن کیلئے روزہ کی نذر مانی ہے۔) صحابہ کرام نے نذریں مانی ہیں۔“(مرآۃ المناجیح،جلد5،صفحہ203،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم