Rozon Se Qasam Ka Kaffara Ada Karne Ki Surat Aur Baad Mein Kabhi Maal Aa Gaya To Kya Hukum Hai?

روزوں سے قسم کا کفارہ ادا کرنے کی صورت میں اگر بعد میں کبھی مال آ گیا تو کیا دوبارہ سے قسم کا کفارہ دینا ہوگا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12860

تاریخ اجراء:19ذیقعدۃ الحرام1444ھ/09جون2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ قسم کے کفارے میں ہےکہ  جو غریب شخص مساکین کو کھانا کھلانے یا انہیں کپڑا پہنانے پر قدرت نہ رکھتا ہوتو  کیا وہ روزوں سے قسم کا کفارہ ادا کرسکتا ہے؟ اگر کرسکتا ہے تو روزوں کے بعد پھر اگر اس کے پاس کبھی مال آجائے  تو کیا اب اُسے نئے سرے سے دوبارہ قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جو شخص مال کے ذریعے قسم کے کفارے کی ادائیگی سے عاجز ہوجائے تو اب اُس کے لیے حکمِ شرع یہ ہے کہ وہ بلا ناغہ لگاتار تین روزے رکھے، اس صورت میں بھی  اُس کی قسم کا کفارہ ادا ہوجائے گا۔

   البتہ روزوں سے کفارے کی درست ادائیگی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُس کا یہ عجز روزے پورے ہونے تک باقی رہے، لہذا  اگر تیسرا روزہ مکمل ہونے سے پہلے پہلے وہ شخص مال پر قادر ہوگیا تو اب اُس کے وہ روزے ناکافی ہوں گے ۔  اور اگر تین روزے رکھ لینے کے بعد  استطاعت ہو گئی تو   دوبارہ سے کفارہ دینے کی حاجت نہیں ہوگی۔

   قسم توڑنے والا مال سے کفارہ ادا کرنے سے عاجز ہو تو لگاتار تین روزے رکھے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍؕ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍؕ- “ترجمہ کنزالایمان: ” تو ایسی قسم کا بدلہ دس مسکینوں کو کھانا دینا اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہو اس کے اوسط میں سے یااِنہیں کپڑے دینا یاایک بردہ(غلام) آزاد کرنا تو جو ان میں سے کچھ نہ پائے تو تین دن کے روزے۔“(القرآن الکریم، پارہ 07،سورۃ المائدۃ،آیت نمبر 89)

   مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں صدر الافاضل مولاناسید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”مسئلہ : روزہ سے کَفّارہ جب ہی ادا ہو سکتا ہے جب کہ کھانا ، کپڑا دینے اور غلام آزاد کرنے کی قدرت نہ ہو۔ مسئلہ : یہ بھی ضروری ہے کہ یہ روزے متواتر رکھے جائیں۔(تفسیر خزائن العرفان، ص 235، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   روزوں سے کفارے کی درست ادائیگی کے لیے روزے پورے ہونے تک عجز کا باقی رہنا ضروری ہے۔ جیسا کہ رد المحتار مع الدر المختار، بحر الرائق، فتاوٰی خانیہ  وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”واللفظ للاول:(والشرط استمرار العجز إلى الفراغ من الصوم، فلو صام المعسر يومين ثم) قبل فراغه ولو بساعة (أيسر) ولو بموت مورثه موسرا (لا يجوز له الصوم) ويستأنف بالمال "خانية"“ یعنی روزوں سے کفارے کی درست ادائیگی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کا عجز روزے پورے ہونے تک باقی رہے، پس اگر نادار شخص نے دو دن روزہ رکھا پھر تیسرے دن کے روزے سے فارغ ہونے سے ایک لمحہ قبل وہ مالدار ہوگیا اگر چہ  مورث کی مالداری کی حالت میں موت کے سبب ہی وہ مالدار ہوا ہو،  تو  قسم  کا کفارہ روزے سے ادا نہیں ہوگا بلکہ نئے سرے سے مال کے ذریعے کفارہ ادا کرنا ہوگا "خانیہ"۔

   (قبل فراغه) کے تحت رد المحتار میں ہے:”أي من صوم اليوم الثالث بقرينة ثم فافهم “ یعنی تیسرے روزے کے مکمل ہونے سے پہلے پہلے وہ مالدار ہوجائے جیسا کہ یہاں "ثم "کا قرینہ اسی پر دلالت کررہا ہے، پس تم غور کرو۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الایمان، ج05، ص 526،  مطبوعہ کوئٹہ)

   مجمع الانہر میں ہے:”( فإن عجز ) الظاهر بالواو ( عن أحدها ) أي عن أحد هذه الثلاثة ( عند الأداء ) أي عند إرادة الأداء لا عند الحنث ، حتى لو حنث وهو معسر ثم أيسر لا يجوز له الصوم وإن حنث وهو موسر ثم أعسر أجزأه الصوم ، ويشترط استمرار العجز إلى الفراغ من الصوم ، فلو صام المعسر يومين ثم أيسر لا يجوز له الصوم“ ترجمہ: ”اگر قسم کھانے والا کفارے کی ادائیگی کے وقت ان تینوں ( یعنی غلام آزاد کرنے، مسکین کو کھانا کھلانے یا کپڑا پہنانے)  میں سے ہر ایک سے عاجز ہو تو اب وہ روزوں سے کفارہ ادا کرے گا۔ یہاں قسم توڑنے کے وقت کا نہیں بلکہ ادائیگی کے وقت کا اعتبار ہے، پس اگر کوئی شخص قسم توڑتے تو  وقت غریب تھا لیکن کفارے کے وقت مالدار تھا تو اس کے لیے روزے سے کفارہ جائز نہیں اور اگر قسم توڑتے وقت وہ مالدار تھا لیکن کفارے کے وقت وہ غریب ہوگیا تو اب اُس کےلیے روزہ کافی ہوگا۔ روزوں سے کفارے کی ادائیگی میں یہ بھی ضرورری ہے کہ روزے پورے ہونے تک اس کا یہ عجز باقی رہے، پس اگر غریب  شخص  نے دو ہی روزے رکھے تھے پھر وہ مالدار ہوگیا تو روزے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا۔“(مجمع الانھر، کتاب الایمان، ج02، ص 265،  مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:” اگر غلام آزاد کرنے یادس10مسکین کو کھانا یا کپڑے دینے پر قادر نہ ہو توپے درپے(لگاتار) تین روزے رکھے۔ عاجز ہونا اس وقت کامعتبر ہے جب کفارہ ادا کرنا چاہتاہے مثلًا جس وقت قسم توڑی تھی اُس وقت مالدار تھا مگر کفارہ ادا کرنے کے وقت محتاج ہے تو روزہ سے کفارہ ادا کرسکتا ہے اور اگر توڑنے کے وقت مفلس تھا اور اب مالدار ہے تو روزے سے نہیں ادا کرسکتا۔ ۔۔۔۔ روزوں سے کفارہ ادا ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ ختم تک مال پر قدرت نہ ہو یعنی مثلاً اگر دوروزے رکھنے کے بعد اتنا مال مل گیا کہ کفارہ ادا کرے تو اب روزوں سے نہیں ہوسکتابلکہ اگرتیسرا روزہ بھی رکھ لیا ہے اور غروب آفتاب سے پہلے مال پر قادر ہوگیا تو روزے ناکافی ہیں اگرچہ مال پر قادر ہونا یوں ہوا کہ اس کے مورث کا انتقال ہوگیا اور اس کو ترکہ اتنا ملے گا جو کفارہ کے لیے کافی ہے۔(بہارِ شریعت، ج 02، ص 309-308، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم