مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری
مدنی
فتوی نمبر: WAT-1826
تاریخ اجراء:29ذوالحجۃالحرام1444 ھ/18جولائی2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میرا سوال یہ ہے کہ اگرکسی شخص کو کوئی
قرآن کی قسم کھانے کا بولے اوروہ
شخص صرف سامنے والے کو دیکھانے کے لیے اپنے
ہاتھ میں قرآن اٹھائے پھر یہ
بولے کہ میں نہیں کروں گایہ
نہیں بولا کہ میں قرآن کی
قسم کھاتا ہو کہ میں نہیں کروگا توکیاصرف ہاتھ میں قرآن
اٹھانے سے قسم ہوجا ئے گی ؟ اور
قرآن اٹھاکر یہ بولنے سے بھی
قسم ہوجائے گی کہ میں نہیں کروں گا ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صرف ہاتھ میں قرآن اٹھانے یا قرآن اٹھاکر
یہ کہنے سے کہ:" میں یہ کام نہیں کروں گا۔"شرعی
قسم نہیں ہوتی، کیونکہ شرعی قسم کے لیے ضروری
ہے ،کہ وہ الفاظ ِقسم کے ساتھ ہو،جیسے واللہ ،یاپھررحمٰن
کی قسم میں یہ کام نہیں کرونگا،ورنہ قسم نہیں
ہوگی۔
البتہ
اگر کوئی شخص قرآن اٹھاکریہ کہہ لے کہ قرآن کی قسم یہ کام
نہیں کروں گا توشرعی قسم
ہوجائےگی ،کیونکہ قرآنِ مجید کلامُ اللہ کا نام ہے اورکلام اللہ
صِفتِ الٰہی ہے،اور اللہ تعالی کی صفات میں سے
کسی صفت کے ساتھ قسم کھانے سے بھی قسم ہوجاتی ہے،بلکہ قرآن پر
ہاتھ رکھ کر قسم کھانے سے قسم اور زیادہ مؤکد ہوجاتی ہے۔
نوٹ: یہ یادرہے کہ کسی سے وعدہ
کرتے وقت اگردل میں یہ نیت ہوکہ یہ کام نہیں کروں
گا،صرف حیلے کے لیے ایساکررہاہوں توبلاوجہ شرعی
ایساکرناسخت گناہ ہے اورقرآن
پاک پرہاتھ رکھ کراس طرح
کرنااورزیادہ وبال کاباعث ہے ۔لہذااس سے بچنالازم ہے۔اورایساکرلیاتو
اس سے توبہ لازم ہے ۔
چنانچہ قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کرکچھ بولنے کے متعلق فتاوی رضویہ
میں سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد
فرماتے ہیں :’’جھوٹی بات پر قرآن مجید کی قسم کھانا
یا اٹھانا سخت عظیم گناہ کبیرہ
ہے اور سچی بات پر قرآن عظیم کی قسم کھانے میں حرج
نہیں اور ضرورت ہوتو اٹھابھی سکتا ہے مگر یہ قسم کو بہت سخت
کرتا ہے، بلاضرورتِ خاصہ نہ چاہئے۔۔۔۔ ہاں مصحف
شریف ہاتھ میں لے کر یا اس پر ہاتھ رکھ کر کوئی بات
کہنی اگر لفظاحلف و قسم کے ساتھ نہ ہو حلف شرعی نہ ہوگامثلاً کہے کہ
میں قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں کہ ایساکروں گا اور پھر
نہ کیا تو کفارہ نہ آئے گا‘‘۔
(فتاوی
رضویہ ،ج13،ص574۔575،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)
قرآن
کی قسم کھانے کے متعلق بہار شریعت میں صدر الشریعہ
مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ’’قرآن کی
قسم،کلام اللہ کی قسم، ان الفاظ سے بھی قسم ہوجاتی ہے‘‘۔(بہار شریعت،ج02،حصہ09،ص301،مکتبۃ
المدینہ ،کراچی)
فتاوی
رضویہ میں ہے ” اگر وعدہ سرے
سے صرف زبانی بطور دنیا سازی کیا اور اسی وقت دل میں
تھا کہ وفا نہ کریں گے توبے ضرورت شرعی وحالت مجبوری سخت گناہ
وحرام ہے ،ایسے ہی خلاف وعدہ کو حدیث میں علامات نفاق سے
شمار کیا۔"(فتاوی
رضویہ، ج12، ص281 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا قرآن پاک کا سچا حلف اٹھانے سے کوئی نقصان ہوتا ہے؟
واٹس ایپ میسج کے ذریعے قسم کھائی کیا قسم منعقد ہوگئی؟
کیا یہ جملہ منت ہے کہ میں اپنی کمائی مسجد میں دوں گا؟
قسم کھائی کہ ایک ماہ تک گھر نہیں جاؤں گا،اب کیا کرے ؟
عورت نے مسجد میں نوافل پرھنے کی منت مانی،کیا گھر میں پڑھ سکتی ہے؟
کیا منّت کے نوافل ایک ہی وقت میں پڑھنا ضروری ہیں ؟
منت کے سو نوافل ایک ہی دن پڑھنے ہوں گے یا الگ الگ دنوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟
نابالغ بچہ قسم توڑ دے ، تو کیا اس پر کفارہ ہوگا ؟